معاشرتی زندگی میں پیار محبت بڑھانے میں باہمی تحائف وغیرہ کے تبادلے کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔
خلوص و محبّت کا اظہار کرنے اور بڑھانے کے لیے تحفے تحائف کا تبادلہ باہمی دلوں کے جوڑنے کا حیرت انگیز زود اثر نسخہ ہے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد کا مفہوم ہے: ’’ایک دوسرے کو تحفے دیا کرو (تاکہ) باہمی محبت قائم ہوسکے۔‘‘
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ سول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’آپس میں ایک دوسرے کو تحفے دیا کرو کیوں کہ ہدیے، تحفے دلوں سے کینہ نکال دیتے ہیں۔‘‘ (معجم ابن المقریٔ)
حضرت ابُوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’آپس میں ہدیے تحفے دیا کرو، کیوں کہ ہدیہ سینوں کی کدورت و رنجش کو دُور کرتا ہے اور ایک پڑوسن دوسری پڑوسن کے ہدیے کو حقیر نہ سمجھے اگرچہ وہ بکری کے کُھر ہی (کا ہدیہ) کیوں نہ ہو ۔‘‘ (جامع ترمذی)
حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’اگر مجھے بکرے کے ایک پائے کا ہدیہ دیا جائے تو میں اسے قبول کرلوں گا، اور اگر مجھے دعوت دی جائے تو میں اس پر حاضر ہوں گا۔‘‘ (جامع ترمذی)
حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’تحفہ میں تین چیزیں واپس نہ کی جائیں: تکیہ، خوش بُو اور دودھ۔‘‘ (ترمذی)
ہمارے معاشرے میں یہ بات عام ہے کہ شادی خوشی کے مواقع پر دوسروں کو بہت سارے تحفے تحائف دیے جاتے ہیں، پھر اگر معاملات کسی وجہ سے بگڑ جاتے ہیں تو وہ تحفے تحائف واپس کرنے کا کہا جاتا ہے، حالاں کہ شریعت کی رُو سے ایسا کرنا حرام اور ناجائز ہے۔
Read also: اسلام میں والدین سے حُسن سلوک کی تعلیم اور اُن کا مقام و مرتبہ
حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ہم میں یہ بُری مثال نہیں ہونی چاہیے کہ جو کوئی ہدیہ کرکے اس کو واپس لے وہ اُس کتّے کی طرح ہے جو قے کرکے اسے چاٹ لیتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاری)
آج دنیا اس قدر بدل چکی ہے کہ لوگ ہدیہ اﷲ کی رضا کے لیے نہیں بل کہ اپنے مفاد کے لیے دیتے ہیں۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ فرماتے ہیں کہ ہدیہ تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں ہُوا کرتا تھا آج کل تو یہ رشوت کا روپ دھار چکا ہے۔
اسی طرح ہمارے معاشرے میں یہ بات بھی مشہور ہے کہ کسی کا دیا ہوا تحفہ آگے کسی اور کو نہیں دے سکتے، حالاں کہ شریعت میں ایسی کوئی ممانعت نہیں ہے۔
حضرت علی کرم اﷲ وجہہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ایک ’’حلہ‘‘ (چادروں کا جوڑا) ہدیے کے طور پر پیش کیا گیا جس کا تانا بانا ریشم سے بنا ہُوا تھا۔ حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے وہ ’’حلہ‘‘ میرے پاس بھیج دیا۔ میں نے حاضر خدمت ہوکر عرض کیا: ’’اے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم! میں اسے کیا کروں؟ کیا میں اسے پہن سکتا ہوں؟ تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں! اس سے فاطمہؓ کو اوڑھنیاں بنا کر دیے دیجیے۔ (سنن ابن ماجہ)
ہمارے معاشرے میں ایک رسم یہ بھی چل پڑی ہے کہ شادی بیاہ کے مواقع پر بہ ظاہر تحفے کے طور پر سلامی کے نام سے نقد روپیوں کا لفافہ دیا جاتا ہے، اگر یہ رقم اس لیے دی جائے کہ جسے تحفہ دیا جارہا ہے وہ اپنی مرضی و منشاء سے اس رقم سے اپنا تحفہ خود خرید لے تو یہ احسن ہے، لیکن ہمارے سماج میں عموماً یہ تحفہ، ہدیہ یا تعاون نہیں ہوتا بل کہ اس کو قرض سمجھا جاتاہے اور قرض بھی سُودی یعنی جتنی رقم دی جاتی ہے۔
دینے والے کے ہاں جب شادی کی تقریب ہوتی ہے تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اب لینے والا میری دی ہوئی رقم مع اضافہ لوٹائے اور رواج بھی یہی ہے کہ واپسی کے وقت اضافہ کرکے ہی دی جاتی ہے، ایسا کرنا حرام اور ناجائز ہے۔
بسا اوقات تحفہ دینے کے لیے کوئی چیز موجود ہوتی ہے لیکن خیال آتا ہے یہ تو حقیر چیز ہے، اسے دینے کا کیا فائدہ ؟ یہ خیال غلط ہے، اسی طرح جس کے پاس چھوٹا سا تحفہ بھیجا جائے وہ خوش دلی سے قبول کرے کیوں کہ تحائف کے تبادلے سے خوش گوار ماحول پیدا ہوتا ہے۔
ہدیہ دیتے وقت اپنی حیثیت کو سامنے رکھیں اور یہ نہ سوچیں کہ آپ جس کو ہدیہ دیں قیمتی ہدیہ دیں، جو کہ کچھ بھی میسر ہودے دیجیے، ہدیہ کے قیمتی ہونے، نہ ہونے کا انحصار آپ کے اخلاص اور جذبات پر ہے۔
اور یہی خلوص و جذبات دلوں کو جوڑتے ہیں ہدیہ کی قیمت نہیں جوڑتی، اسی طرح دوست کے کسی ہدیے کو بھی حقیر نہ سمجھیں، اس کے اخلاص پر نگاہ رکھیے۔ آج کے حالات میں کتاب بھی بہترین تحفہ ہے یا سامنے والے کی ضرورت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بھی تحفے کا چناؤ کیا جا سکتا ہے۔
حاجی امداد اﷲ صاحب مہاجر مکی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ ایک بزرگ اپنے شیخ کی خدمت میں حاضر ہوئے، ہدیہ لانے کے لیے پاس کچھ تھا نہیں، راستے میں خشک لکڑیوں کا ایک گٹھا باندھا اور لا کر بہ طور ہدیہ پیش کردیا۔
ان بزرگ نے اس کی اتنی قدر کی کہ ان لکڑیوں کو احتیاط کے ساتھ رکھے رکھا اور وصیت کی کہ میرے مرنے کے بعد غسل کے لیے جو پانی گرم کیا جائے وہ اسی سوختہ سے کیا جائے۔
( بہ حوالہ: حضرت تھانویؒ کے پسندیدہ واقعات)
افسوس! اس وقت ہم لوگوں میں باہم مخلصانہ تحفہ تحائف کے لین دین کا رواج بہت کم ہوگیا ہے اور اگر کہیں ہے بھی تو وہ بھی صرف علماء ، مشائخ اور بزرگانِ دین کی شخصیات تک محدود ہے، عزیز و اقارب، اڑوس پڑوسیوں اور دوستوں وغیرہ کو دینے کا رواج تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔
تحفہ ایک ایسا عطیہ ہے جو دوسرے کا دل خوش کرنے اور اس کے ساتھ اپنا تعلق خاطر ظاہر کرنے کے لیے دیا جاتا ہے، تاکہ اس کے ذریعے رضائے الٰہی کو حاصل کیا جاسکے۔
یہ عطیہ اگر اپنے کسی چھوٹے کو دیا جائے تو اُس کے ساتھ شفقت و محبت کا اظہار ہے۔ اگر کسی بڑے کو دیا جائے تو اُس کے ساتھ عقیدت و احترام کا اظہار ہے۔ اگر کسی دوست کو دیا جائے تو اُس کے ساتھ علاقۂ محبت کے وسیع کرنے کا اظہار ہے۔ اگر کسی ایسے شخص کو دیا جائے جس کی مالی حالت کم زور ہے تو یہ ا س کی اشک شوئی اور ہم دردی کا اظہار ہے۔