اداس عید
رمضان شریف کی آمد کا شور تھا، آیا اور چلا گیا پتہ بھی نہیں چلا۔ چاروں اطراف عید مبارک کا شور ہے عید بھی آگئی اور کیسے پلک جھپکتے گزر جائے گی پتا بھی نہ چلے گا۔ مگر کمبخت، نحوست کا مارا یہ کرو نا جانے کب سے آیا ہوا ہے جیسے صدیاں ہی بیت گئی مگر یہ ابھی تک جانے کا نام نہیں لے رہا۔
کوئی بڑی بہادری سے لڑنے کو کہہ رہے ہیں، کوئی لڑنے کے بجائے ڈرنے کو کہہ رہے ہیں اور جو مر گئے یا مر رہے ہیں وہ ڈرنے والے ہیں یہ لڑنے والے اس کا شاید جواب نہیں ہے میرے پاس۔ میں تو بس یہی سوچ رہا ہوں کہ جو چلے گئے ان کی قسمت میں اس سال کی عید کی خوشیاں نہ تھی ان کے گھر والے کس کیفیت کا شکار ہوں گے یہ سوچ کر ہی دل منہ کو آتا ہے خدا را احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑئیے۔
کرونا سے اموات کا غم کیا کم تھا کہ حالیہ جہاز کی تباہی کی خبر نے ذہن و دل کو ہلا کر رکھ دیا۔ ان میں سے کتنے ہی ایسے ہونگے جو عید کی نماز کے بعد قبرستان میں اپنے بچھڑوں کی قبروں پر پھول چڑھانے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہوں گے،اس چیز سے قطعی بے خبر کے بہت جلد ہی ان پر بھی پھول چڑھائے جانے والے ہیں۔ ایک منٹ سے کم عرصے میں خاندان اُجھڑ گئے۔
اگلا پہیہ جام ہوگیا، ایک انجن ناکارہ ہوا اور پھر دوسرا بھی ہوگیا، کس کو روئیں کس کو الزام دیں آج تو بس سعادت حسن منٹو کا وہ افسانہ یاد آگیا۔
آج کل میں ایک بہت بڑی عمارت بنوا رہا ہوں۔ ٹھیکہ میری ہی کمپنی کے پاس ہے، دو لاکھ کا ہے۔ اس میں سے پچھتر ہزار تو میں صاف اپنی جیب میں ڈال لوں گا۔ بیمہ بھی کرالیا ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ جب تیسری منزل کھڑی کی جائے گی تو ساری بلڈنگ اڑاا ڑا دھڑام گر پڑے گی۔ کیونکہ مصالحہ ہی میں نے ایسا لگوایا ہے۔
اس وقت تین سو مزدور کام پر لگے ہوں گے۔ خدا کے گھر سے مجھے پوری پوری امید ہے کہ یہ سب کے سب شہید ہو جائیں گے۔ لیکن اگر کوئی بچ گیا تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ پرلے درجے کا گناہگار ہے جس کی شہادت اللہ تبارک تعالیٰ کو منظور نہیں تھی۔
کرونا سے اموات اور مریضوں کی بڑھتی تعداد اور پھر جہاز والا واقعہ میری تو عید بالکل ہی پھیکی ہے اس سال۔
ہم شاید اس درد اور تکلیف کا عشرِ عشیر بھی محسوس نہیں کر سکتے جس سے ان کے لواحقین گزر رہے ہیں، مگر دعا کے لیے ہاتھ ضرور اٹھا سکتے ہیں۔ اللہ تعالی اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے کرونا اور جہاز حادثے سے جاں بحق ہونے والوں کے درجات بلند فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل اور حوصلہ دے۔

