انسانی معاشرہ مختلف گھرانوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ ان میں سے ہر گھرانہ شوہر بیوی کے رشتے سے وجود میں آتا ہے۔ ان دونوں کے رشتے کے امتزاج سے اللہ تعالیٰ انہیں صاحبِ اولاد بناتا ہے۔ اس طرح ایک گھرانے کی تکمیل ہوتی ہے، چونکہ معاشرہ گھرانوں سے وجود میں آتا ہے، اس لئے بہترین معاشرے کی تشکیل کے لئے بہترین گھرانوں کی بنیاد رکھنا ضروری ہے۔ اس لئے والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی بہترین تربیت کریں ،تاکہ ان کے تربیت یافتہ گھرانے سعادت مند معاشرے کی تشکیل میں ممد و معاون ثابت ہوں۔
بچوں کی دیکھ بھال اور ان کی صحت اور غذا کا خیال رکھنا ایک ماں کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح ایک باپ اپنے گھر والوں کے لئے اچھی زندگی کا انتظام کرتا ہے۔ وہ اپنی ہمت و طاقت کے مطابق انہیں وہ تمام وسائل فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے ،جن کی انہیں ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں بچوں کی تربیت کے متعلق عمومی تصور یہ پایا جاتا ہے کہ اس کی ساری ذمہ داری ماں کے حصے میں آتی ہے ،اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بچے سارا دن ماں کے ساتھ گھر پر رہتے ہیں، اس لئے وہی ان کی تربیت کی واحد ذمہ دار ہے۔ اس کے برعکس چونکہ باپ اپنی معاشی مصروفیت کی بناء پراکثر گھر سے باہر رہتا ہے ،اس لئے وہ خود کو اس ذمہ داری سے آزاد سمجھتا ہے۔ یاد رکھیں یہ تصور درست نہیں ہے۔حقیقت یہ ہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے ماں باپ دونوں کا کردار انتہائی اہم ہے۔دونوں جب اپنی اپنی ذمہ داری نبھاتے ہیں تو تعلیم و تربیت کا عمل اعتدال کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچتا ہے۔
یہاں پر ہمیں یہ بات خوب اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ والدین کو اولاد کے معاملے میں مختلف آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔تو ایسی کسی بھی آزمائش پر انتہائی حکمت سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے اور صبر جمیل کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اولاد آنکھوں کی ٹھنڈک اوردل کا سکون ہے۔ اگر اولاد نافرمان بھی ہوجائے یا ان سے کوئی غلطی بھی ہوجائے تو بھی کوئی والد یہ نہیں چاہتا کہ اسے کوئی نقصان پہنچے۔ سیدنا نوح علیہ السلام کے بیٹے کی مثال لیں۔
وہ کافر تھا ، پھر بھی سیدنا نوح علیہ السلام اللہ سے اس کے لئے دعا کرتے ہیں، کیونکہ وہ ان کا بیٹا اور لخت جگر تھا۔ سیدنا نوح علیہ السلام چاہتے تھے کہ وہ کسی طرح اسے ڈوبنے سے بچالیں۔ اس لئے وہ انہیں آخر تک منتیں کرتے رہے کہ بیٹا آؤ ہماری کشتی میں بیٹھ جاؤ۔ جب وہ نہیں مانا اور کہنے لگا کہ میں تو کسی اونچے پہاڑ پر چڑھ کر اپنے آپ کو بچالوں گا۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا اور وہ ڈوب کر مرگیا ۔ اس وقت دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر سیدنا نوح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے اس کے لئے سفارش کی، اے اللہ وہ میرا بیٹا تھا ،اسے معاف فرما۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں تنبیہ کیا کہ اے نوح ! اس کا تم سے کوئی تعلق نہیں ، تم دوبارہ مجھ سے اس کی سفارش مت کرنا۔(سورۂ ہود:42-46) اسی طرح سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا صبر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ اے ابراہیم ،تم اپنے بیٹے کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرو۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام اپنے رب کے حکم کو بجالائے اور اپنے بیٹے کی گردن پر چھرا چلانے لگے، اندازہ لگائیں کہ یہ ان کے لئے کتنی بڑی آزمائش تھی جس پر انہیں صبر کرنا پڑا۔اگرچہ اس آزمائش پر پورا اترنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے بیٹے سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو بچالیا اور بطور فدیہ ایک مینڈھا بھیجا جسے سیدنا ابراہیم علیہ السلام ذبح کیا۔(سورۂ صافات: 102-107) ہماری اولاد ہمارے لئے آزمائش ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :”یقیناً تمہارے اموال اور تمہاری اولاد آزمائش ہیں”۔(سورۃالانفال:28)
کیونکہ آزمائش پر پورا اترنے کے لئے صبر کرنا لازم ہے، اس لئے ایک والد کے منصب کے ساتھ صبر جڑا رہتا ہے۔ اس کے بغیر کوئی شخص اچھا والد نہیں بن سکتا ۔ایک طویل عرصہ گزرنے کے بعد جب سیدنا یوسف علیہ السلام اپنی تمام آزمائشوں سے گزر کر مصر میں وزیر بن چکے تھے۔اس وقت جہاں بہت سارے علاقوں میں قحط پڑ چکا تھے، وہیں سیدنا یعقوب علیہ السلام کا علاقہ بھی قحط سالی سے دوچار تھا۔چنانچہ ان کے بیٹے جب غلہ لینے دوسری دفعہ مصر روانہ ہوتے ہیں تو اپنے والد گرامی سے کہتے ہیں ابا جان ! بنیامین کو بھی ہمارے ساتھ بھیج دیں ، اس طرح ہمیں ایک حصہ غلہ زیادہ مل جائے گا۔
جب وہ بنیامین کو لے کر مصر جانے لگتے ہیں تو اس وقت سیدنا یعقوب علیہ السلام ان سے کہتے ہیں کہ دیکھو میں تمہیں بنیامین کو ساتھ لے جانے کی اجازت تو دے رہا ہوں، مگر اب کی دفعہ امانت میں خیانت نہ کرنا کیونکہ تم پہلے بھی ایک وعدہ توڑ چکے ہو۔پھر جب ان کے بیٹے مصر کی طرف روانہ ہونے لگتے ہیں تو اس وقت سیدنا یعقوب علیہ السلام انہیں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :” اے میرے بچو ! تم سب ایک دروازے سے(مصر میں) داخل مت ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے داخل ہونا ، میں اللہ کی طرف سے آنے والی کسی چیز کو تم سے ٹال نہیں سکتا ،حکم صرف اللہ ہی کا چلتا ہے ، میرا کامل توکل اسی پر ہے اور ہر ایک توکل کرنے والے کو اسی پر توکل کرنا چاہیے”۔(سورۂ یوسف:67)سیدنا یعقوب علیہ السلام کا انداز تربیت دیکھیں کہ وہ بار بار اپنے بچوں کو اللہ کے ساتھ جوڑ تے ہیں۔ انہیں توحید کا درس دیتے ہیں۔انہیں بتاتے ہیں کہ اللہ کے پاس ہی سارے اختیارات ہیں ۔ ہوتا وہی ہے جو وہ چاہتا ہے۔ ہمارا کام صرف کوشش کرنا ہے۔
ایک والد اپنی اولاد کی تربیت کے معاملے میں اتنا حساس اس لئے ہوتا ہے کیونکہ وہ جوابدہ ہے اس نے اللہ تعالیٰ کو اپنی ذمہ داری کا جواب دینا ہوگا۔اس لئے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: “تم سب نگہبان ہو اور ہر ایک سے اس کی نگہبانی کے متعلق پوچھا جائے گا۔ آدمی اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے، اس سے ان کے بارے میں سوال کیاجائے گا”۔(بخاری:2554) آپ ﷺ نے فرمایا:”انسان کے گناہ گار ہونے کے لیے یہ (عمل) کافی ہے کہ جن کے رزق و اخراجات کا یہ ذمہ دار ہو، انہیں ضائع کر دے “۔(سنن ابوداؤد:1692)اس لئے ایک والد کی ہمیشہ یہی فکر ہونی چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت بہتر سے بہتر کس طرح کرسکتا ہے۔
وہ انہیں اللہ کے قریب کرے ، ان سے محبت و شفقت سے پیش آئے اور انہیں سمجھائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اولاد کی تربیت کے لئے باپ کو کہیں سختی اور کہیں نرمی کرنی پڑتی ہے۔ کہیں محبت کی ضرورت پڑتی ہے تو کہیں پر ڈانٹنا بھی پڑتا ہے۔بس یہ بات ذہن میں تازہ رہے کہ ایک والد کی تربیت کا حاصل یہ ہو کہ کس طرح اس کی اولاد اللہ تعالیٰ کے قریب ہوجائے ۔جب کسی کی اولاد اللہ تعالیٰ کے قریب آتی ہے تو پھر ان کی دنیا اور آخرت دونوں کی کامیابی یقینی ہوجاتی ہے۔پھر اس کا فائدہ صرف اولاد تک محدود نہیں رہتا بلکہ اس کا فائدہ والدین کو بھی ہوتا ہے۔
نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے : “جب انسان فوت ہو جائے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین اعمال کے (وہ منقطع نہیں ہوتے): صدقۂ جاریہ یا ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے یا نیک بیٹا جو اس کے لیے دعا کرے”۔ (صحیح مسلم:1631) اللہ تعالیٰ ہماری اولاد کو نیک و صالح بنائے۔ ہمارے مرنے کے بعد انہیں ہمارے لئے دعا کرنے والا اور صدقہ جاریہ بنادے۔ اللہ تعالیٰ بحیثیت والد ہمیں اپنا کردار نبھا تے ہوئے منہج انبیاء کے مطابق اپنی اولاد کی تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)