تخلیقی کام کوئی بھی ہو اس کا براہ راست تعلق انسان کے تخیل اور سوچ سے ہوتا ہے، تخیل کی پرواز جتنی اونچی ہو کام بھی اتنا ہی احسن طریقے سے سر انجام پاتا ہے۔
ایسی ہی ایک سوچ اور یاد کل ذہن میں گردش کرتی کراتی مجھ کو بھی اپنے ساتھ 90 کی دہائی میں ہوئی ایک شادی کے ولیمے میں لے گئی جہاں کے پکے ہوئے دیگی مرغے کے سالن کا ذائقہ آج بھی منہ میں پانی بھر لانے کا سبب بنتا ہے۔
شادی کے یہ کھانے کسی “فن پارے” سے کم نہیں ہوا کرتے تھے۔
ایک طرف ذہن نے دیگی مرغے کے اجزاۓ ترکیبی پر غور و فکر شروع کیا اور دوسری طرف ایک ناقابل فراموش منظر بھی ایک فلم کی طرح ذہن میں گردش کرنے لگا۔
کرسیوں کے کناروں پر چاک و چوبند، کھانے کی میزوں پر عقابی نظریں جمائے، بےچینی کے عالم میں ٹانگوں کو ہلاتے “مہذب” حضرات، کھانوں کی محسور کن خوشبو، دھواں دھواں سی فضا اور پھر ایک کونے سے اچانک ایک فلک شگاف زوردار آواز۔۔۔
“روٹی کُھل گئی اے”
اس سے آگے کا پورا منظر، اصل رنگ میں بیان کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ کا اتنا ذخیرہ نہیں۔
تمام تر واقفیت اور محبت کو ایک طرف رکھ کر طاقت سے بھرپور دھکے، بے شرمی کے نقطہ عروج پر ایک دوسرے سے نظریں چراتے ہوئے سالن کا چمچ کسی اور کو نہ دینے کا مصمم ارادہ، پلیٹوں میں بوٹیوں کے پہاڑ، گلاسوں میں دہی، (کہ اس کو بعد میں پی کر گوشت ہضم کیا جائے)، فرنی میں براہ راست سالن والے ہاتھوں کا استعمال، بکھری زلفیں، ایک طرف سے اوپر کو اٹھی ہوئیں تیل سے آلودہ شیشوں والی عینکیں، کلف والے کپڑوں پر عجیب وغریب نقشہ بناتے ہوئے تیل کے داغ، کھانے پر بروقت حملہ نہ کرنے والے کچھ ناکام حضرات کے
“در فٹے منہ” اور “لکھ دی لعنت” بڑبڑاتے ہوئے ہونٹ اور سب سے اخیر میں کرسیوں پر بے سدھ پڑے لوگوں کے “نمک تیز تھا” اور “میٹھا کم تھا” جیسے تبصرے اور چہ مگوئیاں۔۔۔
Read also: مسز ہیلن دو میٹھے بول۔
خیر بات کہاں سے کہاں چلی گئی لیکن ہونٹوں پر ہنسی بکھیرتے ہوئے اسی منظر کو سوچتے سوچتے میں نے دیسی گھی میں پکا ہوا کُکڑ کب تیارکر لیا پتا بھی نہیں چلا۔
اور الحمدللہ دیسی گھی میں پکا یہ “دیسی کُکڑ” ذائقے میں اس شادی کے دیگی مرغے سے کسی طور پر بھی کم نہ تھا۔ گھر والوں نے خوب مزے سے کھایا اور خوب داد دی۔
شکل و صورت میں کیسا ہے بتائیے گا ضرور۔۔
دعا کا طالب
محمد عظیم حیات
لندن