ہم اپنی تربیت کیسے کریں؟ یہ ہماری زندگی کا انتہائی اہم سوال ہے، اتنا اہم کہ ساری زندگی کی ہمیشہ ہمیشہ کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار اسی سوال پر ہے۔ یہ سوال زندگی بھردرپیش رہتا ہے کیونکہ تربیت کی جستجو آخر دم تک کی جستجو ہے۔ تربیت زندگی کے لئے اہم اور ناگزیر چیز ہے۔ پھر یہ کہ ایک تربیت وہ ہے جو ہمارے جسمانی وجود کی تربیت ہے یا ہمارے جسم کی تربیت، جسم میں قدرت کی طرف سے بخشی ہوئی قوتوں اور صلاحیتوں کی تربیت، خصوصاً سوچنے، سمجھنے، دیکھنے، سننے اور عمل کرنے کی صلاحیت و قابلیت کی تربیت۔ ہم خود چاہیں یانہ چاہیں، خود کریں یا نہ کریں، جسمانی صلاحیتوں کی یہ تربیت بڑی حد تک بہ ظاہر خود بخودہوتی رہتی ہے کیونکہ درحقیقت یہ ہمارے رب اور مربی کا دست قدرت و رحمت ہے جو غیر محسوس انداز میں ہماری تربیت کرتا رہتا ہے۔ ہماری پیدائش کا عمل شروع ہوتے ہی یہ تربیت شروع ہو جاتی ہے اور عمر بھر جاری رہتی ہے۔ یہ تربیت دراصل فطری تربیت ہے۔
رسول ﷺ زندگی بھر انسانوں کا تزکیہ وتربیت کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ رسول اللہ ﷺ کے بعدصحابہ کرام ؓتزکیہ و تربیت کی ذمہ داری ادا کرتے رہے اور اس کے بعد تاریخ میں ہمیں صوفیائے کرام، اولیائے عظام انسانوں کے تزکیہ و تربیت کرتے نظر آتے ہیں۔ ادارۂ خلافت کے بعد جب ملوکیت وجود میں آئی تو ذاتی حکومت کو قائم رکھنے کی خواہش نے ریاست اور حکمرانوں کی توجہ مسلمانوں کے تزکیہ و تربیت سے ہٹا دی ،لہٰذا اسی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لئے مفسرین ومحدثین، فقہا و علماء امت نے تصوف کا باقاعدہ ادارہ قائم کیا اور سلوک و طریقت کو مسلمانوں کے تزکیہ روح اور تربیت نفس کا ذریعہ بنایا۔ حقیقت یہ ہے کہ سلاسل تصوف وطریقت اور بیعت کے رائج کرنے کا مقصد ہی صرف اور صرف مسلمانوں کی تربیت نفس اور تزکیہ روح ہی تھا۔
اسی مقصد کو حاصل کرنے کے لئے خانقاہی نظام رائج کیا گیا، یہ خانقاہیں، آستانے اور درگاہیں دراصل تصوف و طریقت کے کالج اور یونیورسٹی کا درجہ رکھتی تھیں جہاں سے بہترین مسلمان ایمان و یقین اور تصوف ولایت کی ڈگریاں لے کر نکلتے تھے اور معاشرے میں پھیل کر دیگرانسانوں کو بھی ’’صبغتہ اللہ ‘‘ کے رنگ میں رنگ دیتے تھے۔ صوفیائے کرام کے اسی قافلے کی ایک مصلح اورمربی ّ ومزکی شخصیت حضرت ادبؔ گلشن آبادی نقشبندی تھے، جنہوں نے صوفیائےکرام کے مشن کو آگےبڑھاتے اور اپنے اردگرد جمع ہونے والے لوگوں کی تربیت و تزکیہ کاعظیم کام انجام دیتے ہوئے دین کے قیام اور نفاذ کے لئے ذہنوں کی آبیاری کا فریضہ انجام دیا۔
حضرت ادبؔ گلشن آبادی 1922 میں بھارت کے موجودہ صوبہ مدھیہ پردیش کے ایک شہر جاورہ (گلشن آباد) میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد خواجہ حافظ غلام حیدر شاہؒ سلسلۂ نقشبندیہ کے عظیم بزرگ اور ولی کامل تھے۔ حضرت ادبؔ صاحب کو قدیم و جدید علوم و فنون، منطق، فلسفہ، طب، تاریخ و سوانح، ادیان و مذاہب، شعر و ادب، لسانیات، عربی، اردو، فارسی، انگریزی پر مکمل عبور کے ساتھ علوم القرآن و حدیث اور فقہ و تصوف میں کمال حاصل تھا، آپ عالم دین، کہنہ مشق شاعر و صاحب طرز ادیب، مستند طبیب، بے مثل خطیب و شعلہ بیان مقرر ہونے کے ساتھ ساتھ’’ راہِ طریقت‘‘ میں ’’پاس دارِ شریعت‘‘ صوفی بزرگ تھے۔ ادبؔ صاحب کی زندگی راہ سلوک و تصوف کی بنیادی تعلیم ’’کم کھانا، کم سونا اور کم بولنا‘‘ کی مکمل تفسیر تھی۔
حضرت ادبؔ گلشن آبادی اپنی زندگی کے ایک ایک قدم ہی نہیں، ایک ایک سانس میں سنت نبویؐ کے سختی سے پابند رہے۔ آپ کا کوئی سانس ذکر الٰہی اور مدح رسولؐ سے خالی نہیں ہوتا تھا۔ آپ فرمایا کرتے تھے ’’مومن کا جو سانس ذکر الٰہی سے غافل ہو ،وہ سانس کافر ہے‘‘ عشق رسولﷺ آپ کی زندگی کا سب سے بڑا وصف تھا۔ آپ کی پوری شاعری عشق رسولﷺ کا بہترین مظہر ہے۔
آپ طریقت کی اصطلاح میں عشق رسولﷺ کے حوالے سے ’’فنا فی الرسول‘‘ کے مقام اعلیٰ سے گزر کر ’’فنا فی اللہ‘‘کے مقام پر فائز ہوئے ۔یہ عشق رسولﷺ ہی کا اعجاز تھا کہ جو آپ کو ایک نظر دیکھ لیتا ہمیشہ کے لیے آپ کا گرویدہ ہو جاتا ۔ حضرت ادبؔ گلشن آبادی کی زندگی بھر کی جدوجہد کا صرف ایک مقصد تھا اور وہ یہ کہ رسول اللہﷺ کے لائے ہوئے دین کو غلبہ و اقتدار حاصل ہو اور انسانوں کے قلوب کو ہدایت ِ نبوی سے روشن کیا جائے۔ آپ کی نعتیہ شاعری میں اس کے حوالے جابجا ملتے ہیں۔
آپ تعلقات میں بڑے وضع دار تھے جس سے جو تعلق تھا حاضر و غائب یکساں تھا، جو وضع داری اختیار کر لی، زندگی بھر کا دستور بن گئی۔آپ اپنے ملنے والوں، مریدین، معتقدین کے لیے ایک داعیِ دین کے لئے قرآنی تعلیم ’’واخفض جناحک للمومنین‘‘کا عملی نمونہ تھے، سب سے بے حد محبت و عزت سے پیش آتے اور ہر محبت کرنے والے سے بڑھ کر اس سے محبت کرتے۔ بڑوں کاادب خود بھی کرتے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتے، بڑوں کی شان میں گستاخی کرنے والا آپ کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ شخص تھا۔ بزرگوں کے ادب و احترام کے سلسلے میں آپ’’ خطائے بزرگاں گرفتن خطااست‘‘کے فکر و فلسفے کے حامل تھے۔
غیبت، دل آزاری، طنز و استہزاء ان کے نزدیک گناہ تھا، غیبت سے شدید نفرت کرتے تھے ،کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ادبؔ صاحب نے کبھی کسی کی غیبت کی ہو۔اپنی ذات کے متعلق تذکروں سے شدید بیزاری محسوس کرتے، خود نمائی و خود پسندی نام کو نہ تھی، عاجزی و انکساری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، دوسروں کی حوصلہ افزائی میں بڑے وسیع القلب تھے جس میں ذرا بھی کوئی استعداد پاتے، اس کے لئے سراپا شفقت بن جاتے اوران کا خوب حوصلہ بڑھاتے۔
ادبؔ صاحب کا علمی مقام و مرتبہ میں منفرد شخصیت کے حامل تھا، آپ کا مطالعہ نہایت ہی گہرا اور وسیع تھا،آپ نہ صرف ایک صاحب طرز ادیب کہنہ مشق و قادر الکلام شاعر تھے، بلکہ نثر نگاری میں آپ کے خطوط اپنی مثال آپ ہیں، جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ ہنر آپ کی فصاحت، قدرت زبان، مکالمہ نگاری، شعوری تخاطب، آسان بیانی اور استعمال لغت کا شاہکار تھا۔ جملہ اصناف سخن پر مکمل دسترس حاصل تھی ،تاہم نعت رسول ﷺآپ کا خاص اور پسندیدہ میدان تھا جو محض شاعری سے بڑھ کر اظہار محبت کا ذریعہ تھا،آپ کے دو مجموعہ کلام ’’حریمِ اسریٰ ‘‘اور ’’صحیفۂ ادب‘‘ منظرِ عام پر آ چکے ہیں۔
آپ کا قلب حبّ رسولﷺ کا مخزن تھا۔ عشق کے تقاضے بھی عجیب ہوتے ہیں، محبت کا رشتہ قائم ہو جائے تو ربط دو طرفہ ہو جاتا ہے۔ بیت اللہ کا طواف اور دربار رسولﷺ میں حاضری کا شوق و تڑپ اس حد تک قلب ادب میں جاگزیں تھی کہ اسباب ظاہری سے محرومی کے باوجود آپ کو یقین کامل تھا کہ ؎
ہے یہ تو یقین بلوائیں گے وہ روضۂ اقدس پر مجھ کو
ہروقت یہ سوچا کرتا ہوں نادار کا ساماں کیا ہو گا
آپ اپریل 1990ء میں سفر حج پر روانہ ہوئے، طواف کعبہ کے بعد دربار رسول ﷺ میں حاضری اور پابوسی کا شرف حاصل کیا۔ واپس مکہ مکرمہ تشریف لائے اور فریضۂ حج کی ادائیگی کے دوران منیٰ کے حادثۂ سرنگ میں۱۰ ذی الحج ۱۴۱۰ھ کو واصل بحق ہو کر نہ صرف جاودانی منصب شہادت حاصل کیا، بلکہ وہیں آسودۂ خاک ہو کر اپنی اس دیرینہ حسرت کی تکمیل پائی۔