انصار مدینہ نے حضور اکرم ﷺ پر اپنے دل و جان نچھاور کردیے۔
حضورؐ کی تشریف آوری سے اس شہر کا ماحول ہی بدل گیا۔ پہلے یہاں کی آب و ہَوا صحت کے لیے سازگار نہ تھی۔ بخار اور دیگر متعدی بیماریاں وبا کی صورت میں پھوٹتی رہتی تھیں۔
پانی خوش ذائقہ نہ تھا۔ اسی وجہ سے یثرب کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ حضور اکرم ﷺ کے تشریف لانے سے نام ہی تبدیل نہیں ہُوا۔ آب و ہَوا بھی خُوش گوار ہوگئی، مزاج بدل گئے۔ دل بدل گئے، رہنے کے انداز بدل گئے۔
حضرت براء بن عازبؓ فرماتے ہیں، حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص مدینہ کو یثرب کہے اسے چاہیے کہ یہ وہ اپنی غلطی پر اﷲ سے مغفرت طلب کرے۔ یہ تو طابہ (پاکیزہ) ہے، یہ تو طابہ ہے یہ تو طابہ ہے۔‘‘ (امام احمد)
حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں: ہم مدینہ منورہ آئے تو وہ وباؤں والا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت بلالؓ بیمار ہوگئے جب رسول اﷲ ﷺ نے اپنے صحابہ کرامؓ کی بیماری کو دیکھا تو (اﷲ کے حضور) عرض کیا: اے اﷲ! ہمارے لیے مدینہ منورہ ایسا ہی محبوب بنا دے جیسا کہ تُونے مکہ مکرمہ کو بنایا تھا بلکہ اس سے بھی زیادہ اور اس کو صحت و عافیت والا بنا اور ہمارے صاع اور مد (پیمانوں اور باٹوں) میں ہمارے لیے برکتیں عطا فرمادے اور یہاں کے بخار کو جحفہ (کے ویرانے) کی طرف منتقل کردے۔‘‘ (صحیح مسلم)
Read also: آدابِ زندگی اور حُسنِ معاشرت کی اہمیت
حضرت عبداﷲ بن زید بن عاصمؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم:
’’بے شک! ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کو حرم بنایا تھا اور یہاں کے رہنے والوں کے لیے دعا کی تھی تو بے شک! میں مدینہ منورہ کو اسی طرح حرم بنا رہا ہوں جیسے ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم بنایا تھا اور میں نے اس کے صاع اور مد کے لیے دو گنی دعا کی ہے اسی طرح جیسے ابراہیم علیہ السلام نے مکہ والوں کے لیے دعا مانگی تھی۔‘‘ (صحیح مسلم)
حضرت ابُوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’مدینہ منورہ کی گھاٹیوں پر فرشتے ہیں، ان سے نہ طاعون اندر آ سکتا ہے اور نہ دجال آ سکتا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)
حضرت انس بن مالکؓ حضور نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں، آپؐ نے فرمایا، مفہوم: ’’مدینہ حرم ہے اس جگہ سے اس جگہ تک، اس کے درخت نہ کاٹے جائیں اور نہ اس میں گناہ کیا جائے، اور جس نے کوئی گناہ کیا اس پر اﷲ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)
مدینہ منورہ کائنات ارض و سماوات کا وہ شاہ کار ہے، جہاں ہر لمحہ آسمان سے رحمت برستی رہتی ہے، اہلِ مدینہ سائبان کرم میں رہتے ہیں، اہل مدینہ کو مدینہ کا شہری ہونے کے باعث بے پناہ فضیلت حاصل ہے۔
یہ وہ خُوش نصیب لوگ ہیں جن کے شب و روز کا ہر لمحہ حضور نبی اکرم ﷺ کی قربت میں گزرتا ہے، حضور نبی اکرم ﷺ کی دعاؤں کا حصار انھیں اپنے دامنِ بخشش میں چھپا لیتا ہے۔ اہل مدینہ کو اگر کوئی مصیبت یا تکلیف پہنچتی ہے اور وہ اس پر صبر کا مظاہرہ کرتے ہیں اور حرف شکوہ زبان پر نہیں آنے دیتے تو ایسے اہلِ مدینہ کے بارے میں حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم نے فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص مدینہ منورہ کی سختیوں اور مصیبتوں پر صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑے گا قیامت کے روز میں اس شخص کے حق میں گواہی دوں گا یا اس کی شفاعت کروں گا۔‘‘ (مسلم)
اہل مدینہ سے برائی کرنا تو درکنار برائی کا ارادہ کرنے والے کو بھی جہنم کی وعید سنائی گئی ہے۔ حضرت ابُوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص اس شہر والوں (اہل مدینہ) کے ساتھ بُرائی کا ارادہ کرے گا اﷲ تعالیٰ اسے (دوزخ میں) اس طرح پگھلائے گا جیسا کہ نمک پانی میں گُھل جاتا ہے۔‘‘ (مسلم)
حضور نبی اکرم ﷺ کے شہر کے رہنے والوں کا ادب و احترام بھی آپؐ کی نسبت و تعلق کی وجہ سے لازم ہے جو ایسا نہیں کرے گا وہ جہنم کا ایندھن بنے گا۔
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’ایمان سمٹ کر مدینہ طیبہ میں اس طرح داخل ہو جائے گا جس طرح سانپ اپنے بل میں داخل ہوتا ہے۔‘‘ (ابن ماجہ)
حضرت ابن عمرؓ کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص تم میں سے مدینہ میں مرنے کی طاقت رکھتا ہو وہ ایسا کرے کیوں کہ جو مدینہ میں مرے گا میں اﷲ کے سامنے اس کی شہادت دوں گا۔‘‘ (ابن ماجہ)