یہ ہیں مسز ہیلن۔ میری محلےدار، انتہائی سلجھی ہوئی، ہنستی مسکراتی ایک روایتی خاتون، ایک بیوہ، چار بچوں کی ماں اور بہت سے پوتے اور پوتیوں کی دادی۔۔۔
بہت سی داستانیں کہتیں چہرے کی جُھریاں، زندگی کے ان گنت تجربوں کے عکاسی کرتے چاندی سے بال، 70 فیصد سے زیادہ بینائی سے محروم آنکھیں جنہوں نے زندگی کے لاتعداد نشیب و فراز دیکھے، وہیں آنکھیں جو دوسری جنگ عظیم کی آپ بیتی سناتے آج بھی بھیگ جاتی ہیں۔۔
وقت کا ستم کہیے یا یہاں کا کلچر، بچے ایک ایک کر کے جوان ہوئے اور اپنے اپنے جیون ساتھی کا انتخاب کر کے اپنے ماں باپ سے الگ ہوتے گئے۔
15 سال قبل بےپناہ محبت کرنے والا شوہر بھی ہمیشہ کا ساتھ چھوڑ گیا۔۔ یہاں کے بوڑھے لوگ ہمارے بزرگوں کی نسبت بہت ہی مضبوط اعصاب کے مالک اور پریکٹیکل قسم کے ہوتے ہیں۔
ادھر لندن میں اکثر لوگ اپنے بوڑھے ماں باپ کو ساتھ رکھنے کے بجائے اولڈ ہوم میں داخل کروا دیتے ہیں، یہی مسز ہیلن کے بچوں نے بھی کرنے کی کوشش کی مگر بچوں کے لاکھ جتن اور منانے کے باوجود مسز ہیلن نے اولڈ ہوم میں رہنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ
“باقی کی تمام عمر بھی اسی گھر میں گزاروں گی جہاں میں اپنے شوہر کے ساتھ رہتی رہی ہوں، بھلے مجھے اکیلا ہی کیوں نہ رہنا پڑے”۔
اور پھر ایسا ہی ہوا، تب سے آج تک زندگی کا باقی ماندہ سفر جیسے تیسے یوں ہی طے کر رہی ہیں۔
آج گھر جاتے ہوئے اچانک مسز ہیلن پر نظر پڑی، اپنے گھر کے دروازے کے قریب کھڑی، ایک گملے میں لگے ہوئے پودے کو بغور دیکھ رہی تھیں۔
میں نے حال احوال کے بعد تجسس بھرے لہجے میں پوچھا:
“اتنی سردی میں کیا کر رہی ہیں مسز ہیلن”؟
کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد، ایک پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ دھیمی سی آواز میں بولیں:
“کچھ خاص تو نہیں، آج میں 92 سال کی ہو گئی ہوں، بس بنفشی پھولوں والی اپنی اس خزاں رسیدہ بیل کی شاخ سے جڑے آخری پتے دیکھ رہی ہوں جو بس اب گرنے ہی والے ہیں اور بس کچھ عرصے بعد میں بھی ان پتوں کی طرح گر جاؤں گی”۔
میرے ہلکے پھلکے سے سوال کا اتنا بھاری بھرکم، زندگی کی اٹل حقیقت سے بھرپور یہ جواب میرے لئے بالکل ہی خلاف توقع تھا۔۔
مسز ہیلن کی آواز میں، الفاظ میں، جواب میں کچھ عجیب سی تاثیر تھی۔ جانے مجھے کیوں ایسا لگا کہ ہمیشہ مسکرانے والی مسز ہیلن اپنے سینے میں بہت سے غم چھپائے بیٹھی ہیں۔
میں چند لمحوں کے لیے بت بنا کھڑا اس گہرے جواب کی گتھیاں سلجھا ہی رہا تھا کہ ایک موٹا آنسو میری دائیں آنکھ کی پلکوں کو گیلا کرتا ہوا، گال پر رستہ بناتا داڑھی میں جذب ہو گیا۔
آج اللہ بخشے میری پیاری دادی جان زندہ ہوتیں تو مسز ہیلن کی ہی عمر کی ہوتیں۔ اپنے سے لگ بھگ پچاس سال بڑی خاتون کی اداسی دور کرنے کی خاطر میں بس اتنا ہی کہہ سکا۔
“مسز ہیلن آپ کو سالگرہ بہت بہت مبارک ہو، آج باقی کا دن آپ کیا کر رہی ہیں”؟
“اوہ بہت بہت شکریہ، میں بس اب تھوڑی دیر میں ٹیکسی پر اپنی بہن کے گھر جاؤں گی جو مجھ سے چند سال ہی چھوٹی ہے۔
میں آج شام کا کھانا اس کے ساتھ کھاؤں گی اور ڈھیروں باتیں کروں گی”۔
مسز ہیلن نے دھیرے سے جواب دیا۔
میرے دل میں خیال آیا کہ میں اور کچھ تو کر نہیں سکتا لیکن ایک پڑوسی ہونے کی حیثیت سے مسز ہیلن کو ان کی بہن کے گھر تو چھوڑ ہی سکتا ہوں۔
خیر بڑے ہی اصرار کے بعد مسز ہیلن کو اس بات پر رضامند کیا۔ تقریبًا پندرہ منٹ کی ڈرائیو کے بعد ہم ان کی بہن کے گھر کے باہر پہنچ چکے تھے۔ دوران ڈرائیو مسز ہیلن نے بچپن کی بہت سی باتیں کیں۔
میں نے گاڑی سے اتر کر جلدی سے پیچھے کا دروازہ کھولا اور ہاتھ آگے بڑھایا تاکہ مسز ہیلن کی گاڑی سے اترنے میں مدد کر سکوں۔
مسز ہیلن نے میرے پھیلے ہوئے ہاتھ پر اپنی بند مٹھی رکھی اور پھر اس کو کھول دیا۔ میری ہتھیلی پر اا پاؤنڈز پڑے ہوئے تھے۔
مسکراتے ہوئے کہنے لگیں:
“یہاں تک ٹیکسی کا کرایہ 10 پاؤنڈ ہوتا ہے۔ اگر ٹیکسی پر آتی تو کرایہ تو دینا ہی تھا لیکن تمھیں ایک پاؤنڈ اضافی دے رہی ہوں تمہاری محبت اور چاہت کے لیے اور یہ تمہیں رکھنے ہی ہوں گے”۔
میں لاجواب سا کھڑا مسز ہیلن کا چہرہ تک رہا تھا اور پھر اچانک غیر ارادی طور پر میں نے مسز ہیلن سے پوچھا۔
“مسز ہیلن آج آپ کی سالگرہ کے موقع پر کیا آپ میرے ساتھ ایک سیلفی لینا پسند کریں گی”۔
میں نے مسز ہیلن کی چھوٹی چھوٹی بے نور سی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک دیکھی، بوڑھے کپکپاتے لبوں کو مسکراہٹ سے پھیلتے دیکھا اور پھر ان کی نہایت شائستہ آواز ایک چھوٹے سے قہقہے کے بعد کانوں میں گونجی۔
“اگر میں واقعی اتنی اہم ہوں تو آپ میرے ساتھ سیلفی لے سکتے ہو”
میں نے اپنا فون نکال کر ایک تصویر لی اور کہا مسز ہیلن آپ واقعی بہت اہم ہیں۔
وہ لاٹھی ٹیکتی ہوئی دھیرے دھیرے دروازے کی جانب بڑھ گئیں۔ دروازے پر پہنچ کر مسز ہیلن نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور مسکرا کر بولیں۔
“میرے دن کو خوشگوار بنانے کا شکریہ
God bless you son”
اور میں وہاں کھڑا یہ سوچ رہا تھا کہ اس میں میرا کیا کمال۔۔؟ شکریہ تو پیارے نبیﷺ کا جنکی پیاری سنت پر عمل کرنے سے نا صرف مسز ہیلن میرے اخلاق سے متاثر ہوئیں بلکہ میرا دل بھی مسرت سے لبریز ہو گیا۔
ذات، پات، رنگ، نسل اور مذہب کو بالائے طاق رکھ کر انسان کو اگر انسان سمجھ کر معاملات دیکھیں جائیں تو اللہ یقیناً ہم سے بہت راضی ہو جائے اور پھر آپﷺ کی حدیث مبارکہ بھی ہے کہ
”تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہیں“۔
دوستو کبھی موقع ملے تو ایسے لوگوں کو یہ احساس ضرور دلائیے کہ وہ واقعی اہم ہیں۔ یقین کیجیۓ زیادہ ڈھونڈنے نہیں پڑیں گے۔
اور شاید ایسے لوگ صرف 2 میٹھے بولوں کے متلاشی یا منتظر ہوتے ہیں۔۔
اللہ پاک آپﷺ کے صدقے ہم سب پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے۔
دعا کا طالب
محمد عظیم حیات
لندن