اس “فن پارے” کو ایک بار ضرور پڑھیے۔۔۔
باپ چار بچوں کے ساتھ ٹرین میں سوار ہوا، ایک سیٹ پرخاموشی سے بیٹھ گیا اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔
بچے؟
بچے نہیں آفت کے پرکالے تھے۔
انہوں نے ٹرین چلتے ہی آسمان سر پر اٹھا لیا، کوئی اوپر کی سیٹوں پر چڑھ رہا ہے ،تو کسی نے مسافروں کا سامان چھیڑنا شروع کر دیا۔
کوئی چچا میاں کی ٹوپی اتار کر بھاگ رہا ہے تو کوئی زور زور سے چیخ کر آسمان سر پر اٹھا رہا ہے
مسافر سخت غصے میں ہیں۔
کیسا باپ ہے؟؟
کیسی تربیت کی ہے اس نے بچوں کی؟؟
نہ انہیں منع کرتا ہے نہ کچھ کہتا ہے، کوئی اسے بے حس سمجھ رہا ہے تو کسی کے خیال میں وہ نہایت نکما ہے۔
بلآخر جب برداشت کی حد ہو گئی تو ایک صاحب غصے سے اٹھ کر باپ کے پاس پہنچے اور دھاڑ کر بولے۔
“آپ کے بچے ہیں یا مصیبت؟”
اور آپ بھی عجیب انسان ہیں کہ ان کو چپ چاپ دیکھ رہے ہیں۔
آخر آپ ان کو ڈانٹتے کیوں نہیں، روکتے کیوں نہیں؟
باپ نے ان صاحب کی طرف دیکھا اس کی آنکھیں آنسووں سے لبریز تھیں اور بولا۔
آج صبح ان کی ماں کا انتقال ہو گیا ہے میں ان کو وہیں لے کر جا رہا ہوں۔ مجھ میں ہمت نہیں کہ ان کو کچھ کہہ سکوں۔ آپ روک سکتے ہیں تو روک لیں۔
Read also: قوت برداشت کا ایک خوبصورت واقعہ
سارے مسافرایک دم سناٹے میں آ گئے۔۔۔
ایک ہی لمحے میں منظر بالکل بدل چکا تھا، وہ شرارتی بچے سب کو پیارے لگنے لگے تھے۔
سب آبدیدہ تھے، سب انہیں پیار کر رہے تھے، اپنے ساتھ چمٹا رہے تھے۔
زندگی میں ضروری نہیں کہ حقائق وہ ہی ہوں جو بس ہمیں نظر آرہے ہوں بلکہ وہ بھی ہوسکتے ہیں جو ہمیں نظر نہ آ رہے ہوں۔
یاد رکھیئے
رائے بنانے میں وقت لگائیں
بد گمانی سے پہلے خوش گمانی کو کچھ وقت دیں،
فیصلے سے پہلے ذرا ایک بار اور سوچ لیں،
بس ایک بار اور۔۔۔۔۔
اور بس اپنے ہی درست اور عقلمند ہونے پہ اصرار نہ کریں۔
اللہ بہت محبت سے ہمیں دیکھ رہا ہے اور ہم سے اپنے بندوں کے لئے نرمی اور معافی کا طلبگار ہے۔۔۔۔!
اللہ پاک اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ہم سب کو نیکی کی ہدایت دے اور ہم سب کو اپنی امان میں رکھے۔
سلامت اور آباد رہیں۔
دعا کا طالب
محمد عظیم حیات
لندن