بدمعاش کَن ٹُٹّا بِلّا
Marhoom Ki Yaad Mein
گزشتہ آٹھ دس سالوں میں لندن سے جب بھی لاہور جانا ہوتا تو یہبِلا گلی میں گھر کے باہر دروازے پر خیر مقدم کے لیے ضرور موجودہوتا تھا۔ پہلی بار میری اس سے ملاقات تقریبًا دس سال پہلے اس وقت ہوئی جب یہ قریب 2 ماہ کا تھا۔ میں جانوروں اور پودوں کے معاملے میں بچپن سے ہی بہت نظر شناس رہا ہوں۔
پہلی نظر میں ہی اس کو دیکھ کر میں پہچان گیا تھا کہ یہ کوئی عام بِلّا نہیں ہے۔ میریاس بات کو گھر والوں نے ہنسی میں اڑا دیا مگر میری یہ پیشگوئی سو فیصد سچ ثابت ہوئی اور آنے والے دنوں میں وقت نے ثابت کیااور سب نے دیکھا کہ نہ صرف ہمارے محلے میں بلکہ ساتھ والے محلوں میں یہ “بدمعاش” اور”کَن ٹُٹّا بِلّا” کے نام سے مشہور ہوا۔
بدمعاش کَن ٹُٹّا بِلّا کے نام سےاس کا مشہور ہونا صرف اس وجہ سے نہیں تھا کہ یہ لڑ جھگڑ کر اپنے جیسے دوسرے بِلّوں کا کھانا کھا جایا کرتا بلکہ اس کے پیچھے ایک اور کہانی بھی تھی۔
جوانی کی سیڑھیاں چڑھتی ہوئی تمام ہی بلیاں اس کے زیرنگیں ہوتی تھیں۔ یہ زبردستی اور بدمعاشی کے بل بوتے پر ان کے دلوں پر راج کیا کرتا تھا۔
دوسرے لفظوں میں اپنے جیون ساتھی کے انتخاب کا حق یہ ان بلیوں سےچھین لیا کرتا اور ان میں سے اکثر بلیاں نوعمری میں ہی اس کے “بلونگڑوں” کی ماںئیں بن جاتیں۔ ان “بلونگڑوں” میں سے یہ بِلوّں کوبے دردی سے قتل کر دیتا اور بلِیّوں کو ایک خاص سوچ کے تحت زندہ ہی چھوڑ دیتا۔
بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی،بہت سی درمیانی اور ادھیڑ عمر کی بلیاں جو اپنے اپنے جیون ساتھیوں کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزاررہی ہوتیں، اس بدمعاش بِلّے کےجابرانہ رویے کے آگے ہتھیار ڈالنےپر مجبور ہوجاتیں اور ان کے نام نہاد جیون ساتھی اس بدمعاش کَن ٹُٹّے بِلّے کے منہ کو تکتے رہ جاتے۔
وقت گزرتا رہا اور یہ بدمعاش کَن ٹُٹّا بِلّا ہمارے اور آس پاس کے محلوں میں بے تاج بادشاہ اور ایک جابر حکمران کی طرح حکومت کرتا رہا۔ گویا ہر دن عید کا اور ہر رات شب برات۔
بلیاں اس کی شکل دیکھ کر سہم جایا کرتیں اور دیگر تمام بِلّے دور سے ہی اس کو دیکھ کر دم دبا کر بھاگ جاتے۔ زندگی میں کَن ٹُٹے بدمعاش بلے پر باقاعدہ طور پر دو قاتلانہ حملے بھی ہوۓ جس کی پوری پوری ذمہ داری ساتھ والے محلے کے دو گھر والوں نے قبول کی۔ ایک گھر تو ایک کبوتر باز کا تھا،
جس کے گھر کا باورچی خانہ اس کی کبوتر بازی سے جڑا ہوا تھا اور وہ کبوتر اسے اپنے بچوں سے زیادہ عزیز تھے۔ تمام تر حفاظتی تدابیر اور انتظامات کے باوجود بدمعاش کَن ٹُٹّا بِلّا مہینے میں ایک آدھ نسلی کبوتر دبوچ لیتا اور دعوت میں اڑاتا۔
دوسرا گھرانہ وہ تھا جو مہنگی ترین امپورٹڈ بلیاں پالنے کا شوقین تھا۔ تفصیلات کے مطابق ان کی ایک انتہائی مہنگی خوبصورت بلی جس کو گلیوں میں جانے کی اجازت ہرگز نہیں تھی، کسی نہ کسی طریقے سے کَن ٹُٹّا بدمعاش بِلّا اس پر ڈورے ڈالنے اور اس کو ورغلانے میں کامیاب ہوگیا۔
نتیجہ یہ کہ کچھ عرصے بعد وہ “امپورٹڈ بلی” اس “بدمعاش کَن ٹُٹّے بِلّے” کے بلونگڑوں کی ماں بن گئی۔ جن کی شکلوں میں مہنگی “امپورٹڈ ماں” کی مشابہت نہ ہونے کو اور کن ٹوٹے کی جھلک بہت زیادہ واضح تھی۔
سادہ لفظوں میں یہ کہ جو کوئی بھی ان “بلونگڑوں” کو دیکھتا تو پہلی ہی نظر میں سمجھ جاتا کہ یہ کن ٹُٹّے کی کاروائی ہے اور یہ اسی کے بلونگڑے ہیں۔
ستم تو یہ بھی ہوا کہ جس “امپورٹڈ بلی” کو وہ کسی خاندانی بلے کا جیون ساتھی بنا کر، ان کے بچوں کو ہزاروں میں بیچنے کی سوچ رہے تھے، کن ٹٹے کی وجہ سے ان بچوں کو کسی نے مفت میں بھی قبول نہ کیا۔
پورے پورے باپ پر گئے تھے۔ یہی وہ وجہ تھی کہ گھر والے اس قدر سیخ پا ہو گئے کہ انہوں نے “بدمعاش کَن ٹُٹّے بِلّے” کو مارنے کا پورا پورا بندوبست کیا مگر وہ کیا کہتے ہیں کہ جس کو اللہ رکھے اسے کون چکے۔ بدمعاش بِلّا دونوں گھروں کے وار سے بال بال بچ گیا اور پھر کبھی ادھر کا رخ نہ کیا۔
میں حال احوال کے لیے جب کبھی بھی لاہور فون کرتا تو اپنے بھتیجے اریب سے بدمعاش کَن ٹُٹّے بِلّے کے بارے میں ضرور پوچھا کرتا۔ کچھ عرصہ پہلے بھتیجے سے باتوں ہی باتوں میں اُس کے متعلق پوچھا۔ کہنے لگا چاچو محلے میں اب بہت سکون ہے۔
محلے میں “سکون” کی مزید وضاحت طلب کرنے پر اس نے مجھے بتایا کہ بدمعاش کَن ٹُٹّا بِلّا اس جہانِ فانی سے کوچ کر گیا ہے۔ سکون سے مراد ان بھیانک آوازوں سے چھٹکارا تھا جو لڑائی کے دوران کَن ٹُٹّا بِلّا اکثر نکالا کرتا تھا۔
افسوس تو مجھے بہت زیادہ ہوا لیکن کیا کریں یہی زندگی کی حقیقت ہے۔ سننے میں آیا ہے کہ اپنے آخری دنوں میں عشق معشوقی سے تو کنارہ کر چکا تھا لیکن اپنی انا کے ہاتھوں مجبور اپنے سے جوان بلوں سے لڑنے میں ابھی بھی شیر تھا اور اب اکثر زخمی ہو جایا کرتا تھا۔
کہتے ہیں کہ مرنے والے کے برے کاموں کو نہیں بلکہ اچھائیوں کو یاد کرنا چاہیے۔ جہاں تک مجھے علم ہے کَن ٹُٹّے بِلّے کے حصے میں بس برائیاں ہی برائیاں آئی تھیں۔ لیکن ایک بات جو اچھائی کے زمرے میں آ سکتی ہے اور وہ یہ کہ جس بھی بلی کو کن ٹُٹٔا بِلّا دل سے محبوب رکھتا تھا اس کو ہمیشہ اپنے کھانے یا پینے کی چیز میں سے پہلے کھلایا یا پلایا کرتا اور بعد میں خود کھاتا یا پیتا تھا۔
دکھائی دی جانے والی تصویر میری ہی اتاری ہوئی ہے. اس تصویر میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ کن ٹُٹٔا بِلّا کس طرح اپنی محبوبہ کو اپنے حصے کا دودھ پلا رہا ہے اور اپنی باری کا انتظار کر رہا ہے۔ کن ٹُٹٔا بدمعاش بِلّا جیسا بھی تھا، میں اس تفصیل میں مزید نہیں جانا چاہتا لیکن جب کبھی بھی لندن سے لاہور جاتا میرے پچکارنے پر وہ میرے پاس ضرور آ جایا کرتا تھا۔
کبھی میں سوچتا ہوں کہ اب جب کبھی میں لاہور جاؤں گا تو گلی میں دروازے کے پاس کن ٹُٹٔا بِلّا دیکھنے کو نہیں ملے گا۔ مگر مجھے یہ امید بھی ضرور ہے کہ کن ٹُٹّے کے پیدا کیے ہوئے درجنوں بلونگڑوں میں سے کوئی نہ کوئی تو اپنے باپ کن ٹُٹٔے کی طرح نکلے گا اور کہلائے گا.
کن ٹُٹٔا بدمعاش بِلّا نمبر دو۔