
مجھے یاد ہے، میں شاید پانچویں جماعت میں تھا۔ اسکول میں سالانہ امتحانات چل رہے تھے۔ تمام پرچے اچھے جا رہے تھے اور آخری پرچہ اردو کا تھا۔
ایک سوال تھا:
“خالی جگہ پر کریں”
جس میں ایک نامکمل محاورہ دیا گیا تھا:
“مالِ مفت ____”
یہ محاورہ میں نے پہلے کبھی نہیں سنا تھا، اس لیے میرے ذہن میں مختلف الفاظ گھومنے لگے۔ میں نے سوچا کہ جب کوئی چیز مفت ملے تو دل تو خوش ہوتا ہے۔ کافی دیر سوچنے کے بعد میں نے اپنی طرف سے محاورہ مکمل کیا:
“مالِ مفت اور دل خوش”
پرچہ ختم ہوا، لیکن میرے ذہن میں یہی سوال گونجتا رہا۔ موقع ملتے ہی اردو کے اُستاد سے جا کر سارا ماجرا سنایا اور پوچھا،
“سر! میں نے خالی جگہ درست بھری ہے نا؟”
وہ مسکرائے، ایک ہلکا سا قہقہہ لگایا، اور بولے:
“سننے میں تو تمہارا محاورہ برا نہیں، لیکن اصل محاورہ یوں ہے:
‘مالِ مفت، دلِ بے رحم'”
میں حیران رہ گیا۔
“مفت کا مال ملے تو دل خوش ہونا چاہیے، پھر ‘دل بے رحم’ کیوں؟”
میں نے الجھن سے پوچھا۔
اُستاذ محترم نے کئی مثالیں دیں، مگر میرا ننھا سا دماغ بات کو پوری طرح نہ سمجھ سکا۔ میری الجھن دیکھ کر وہ نرمی سے بولے:
“کوئی بات نہیں، ایک دن یہ محاورہ تمہیں خود ہی سمجھ آ جائے گا… بہت اچھے سے!”
وقت گزرتا رہا، اور پھر زندگی میں کچھ ایسے موقع آئے… جب واقعی یہ محاورہ سمجھ آ گیا۔ بلکہ پچھلے کئی سالوں میں تو بار بار سمجھ میں آتا رہا… اور آج بھی آ رہا ہے۔
اور یہی حال کچھ وقت وطنِ عزیز پاکستان کا بھی ہے۔
اسے “مالِ مفت” سمجھ کر، جس جس کا جہاں داؤ چلتا رہا اور چلتا ہے، وہ اپنا کام دکھا دیتا ہے۔
چاہے وہ ایئرکنڈیشنڈ دفتر میں بیٹھا ہو یا سڑک کنارے ریڑھی لگاتا ہو۔ یہ کوئی سیاسی پوسٹ ہرگز نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اسے سیاسی سمجھے بلکہ ایک تلخ ترین حقیقت ہے۔
ہر کوئی اپنی اپنی بساط اور موقع کے مطابق “مالِ مفت، دلِ بے رحم” والا حساب کر رہا ہے۔ کوئی ایک طبقہ نہیں، ہر سطح پر یہی چلن ہے۔
المیہ یہ نہیں کہ لوگ اسے کھا رہے ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ وہ اسے اپنا “حق” سمجھ کر کھا رہے ہیں اور کھاتے رہے ہیں۔
انہیں کوئی ندامت نہیں۔
کوئی احساس جرم نہیں۔
لیکن… آج جب ان ساری تلخیوں میں دل بھر آیا، تو ایک اور یاد بھی جاگی، اسی اردو کے پرچے میں ایک اور خالی جگہ تھی، جو میں نے درست پر کی تھی:
“پیوستہ رہ شجر سے ____”
“امیدِ بہار رکھ”
جی دوستو،
پیوستہ رہ شجر سے، امیدِ بہار رکھ۔
یہی امید ہے جو انسان کو ٹوٹنے نہیں دیتی۔
یہی امید ہے جو دعا کا ہاتھ بلند کرتی ہے۔
اور یہی امید، اللہ کے کرم کو زمین پر اتارتی ہے۔
دل سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے صدقے ہمارے وطن پر رحم فرمائے۔
اسے “مالِ مفت” سمجھنے والے بے رحم دلوں کو ہدایت دے اور ہم سب کو ایسا سچا درد عطا فرمائے جو صرف تنقید نہ کرے، بلکہ تبدیلی کا آغاز بنے۔
دعا کا طالب
محمد عظیم حیات
لندن