جلتا انگارہ
ایک شخص اپنے دوستوں کی محفل میں باقاعدگی سے شریک ہوتا تھا اور پھر کچھ ایسا ہوا کہ اس نے اچانک کسی اطلاع کے بغیر اس محفل میں آنا چھوڑ دیا۔
محفل کے دوسرے دوست احباب اُس کی یوں اچانک غیر حاضری کی وجہ سے حیران اور پریشان تھے۔ آخر کچھ دنوں کے بعد ایک انتہائی سرد رات میں اس محفل کے ایک بزرگ نے اس شخص سے ملنے کا فیصلہ کیا اور اس کے گھر چلے گئے۔
دروازے پر دستک دی ،دروازہ کھلنے پر اس شخص نے بزرگ کا استقبال کیا اور بزرگ کو گھر کے اندر آنے کو کہا۔


وہاں اس بزرگ نے محسوس کیا کہ وہ شخص گھر میں تنہا تھا، دروازہ کھولنے کے بعد وہ شخص کمرے میں موجود آتشدان کے سامنے گم سم سا بیٹھ گیا ، جہاں آگ روشن تھی اور ماحول کافی آرام دہ اور پرسکون تھا۔ دونوں خاموشی سے بیٹھ گئے، اور آتشدان کے آس پاس رقص کرتے شعلوں کو دیکھتے رہے۔
کچھ دیر بعد، مہمان نے ایک لفظ کہے بغیر، جلتے انگاروں میں سے ایک کا انتخاب کیا جو سب سے زیادہ دہک رہا تھا، اس کو چمٹے کے ساتھ اٹھایا اور فرش پر ایک طرف الگ تھلگ رکھ دیا۔ میزبان خاموش ضرور تھا مگر ہر چیز کا بغور جائزہ لے رہا تھا۔
کچھ ہی دیر میں فرش پر رکھے ہوئے انگارے کا شعلہ بجھنے لگا، تھوڑی سی دیر میں جو کوئلہ پہلے روشن اور دہک رہا تھا اب ایک کالے اور بُجھے ہوئے ٹکڑے کے سوا کچھ نہیں رہ گیا تھا۔
جب سے مہمان بزرگ اس شخص کے گھر آئے تھے ان کے درمیان بہت ہی کم گفتگو ہوئی تھی ، روانگی سے پہلے، مہمان نے بجھا ہوا کوئلہ فرش سے اٹھایا اور اسے دوبارہ آگ کے بیچ رکھ دیا، کچھ ہی دیر میں اس کے چاروں طرف جلتے ہوئے کوئلوں کی روشنی اور حرارت نے اسے دوبارہ زندہ کر دیا اور وہ پھر سے پوری آب و تاب کے ساتھ دہکنے لگا۔
جب مہمان روانگی کے لئے دروازے پر پہنچا تو میزبان نے محفل میں بغیر اطلاع کئے غیر حاضری پر معافی مانگی اور کہا: “آپ کی آمد کا، اور آپ کے اس خوبصورت سبق کا بہت بہت شکریہ، میں اب جلد ہی پہلے کی طرح آپ کی محفل میں واپس آؤں گا”
سوال یہ ہے کہ اکثر محفل بجھ کیوں جاتی ہے؟؟
بہت آسان سی بات ہے “کہ محفل کا ہر رکن ایک دوسرے سے آگ اور حرارت لیتا ہے۔ گروپ یا محفل کے اراکین کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ وہ شعلے کا ایک حصہ ہیں۔
ہم سب ایک دوسرے کی آگ کو روشن کرنے کے ذمہ دار ہیں اور ہمیں اپنے درمیان اتحاد کو قائم رکھنا چاہئے تاکہ محبت کی آگ واقعی مضبوط، موثر اور دیرپا ہو، اور ماحول آرام دہ اور پرسکون رہے”۔ محبت کی یہ آگ اور حرارت ہمیں اندر سے بجھنے نہیں دیتی۔
دوست احباب کی بیٹھک یا گروپ بھی ایک کنبہ کی طرح ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کبھی کبھی ہم کچھ پیغامات اور باتوں سے ناخوش اور ناراض ہو جاتے ہیں، جو بات اہم ہے وہ یہ ہے کہ اس تعلق کو قائم رکھنا چاہیے۔ محفل میں محبت کی آگ روشن رہنی چاہیے جو ہمیں ہر مشکل وقت میں یہ احساس دلاتی ہے کہ ہم تنہا نہیں ہیں۔
دوسروں سے حرارت لیں اور اپنی حرارت سے دوسروں کو مستفید کریں اور سب کو دعاؤں میں یاد رکھیں، اس شعلہ کو زندہ رکھیں اور اللہ تعالی کی عطا کردہ سب سے خوبصورت چیز، “دوستی” کو ہمیشہ قائم و دائم رکھیں۔


اللہ تعالی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے ہم سب کو آسانیاں بانٹنے کا شرف بخشے۔ آمین یا رب العالمین