انسان کی زندگی میں بعض ایسے مواقع بھی آتے ہیں کہ جب اسے اپنی یا اپنے متعلقین کی آئندہ دنوں کی زندگی کے معاملات سے متعلق ایسے فیصلے کرنے یا اقدامات لینے ہوتے ہیں ،جن کے نتائج مستقبل کے پردۂ غیب میں چھپے ہوتے ہیں، جن کے بارے میں وہ نہیں جانتا کہ مستقبل میں ان فیصلوں اور اقدامات کے نتائج اس کے حق میں کیسے ہوں گے ،بہترین یا بد ترین۔ گو مگو کی اس کیفیت میں وہ ایک ذہنی کش مکش میں رہتا ہے کہ کیا فیصلہ کرے!
ایک مسلمان کے لیے تعلیماتِ اسلامی اور اُسوۂ حسنہ ﷺ میں بہترین رہنمائی موجود ہے۔ اس رہنمائی کو اصطلاحاً ’’استخارہ‘‘ کہتے ہیں۔ گو مگو اور ذہنی کش مکش کے ایسے مواقع پر عملِ استخارہ نہ صرف یہ کہ مومن کا بہترین ہتھیار اور رہنما ہے،بلکہ امت کے لئے اللہ کا ایک انعام بھی ہے۔ اسلام سے قبل لوگ جاہلانہ انداز سے تیروں،پرندوں اور بتوں سے فال جیسی مشرکانہ رسومات سے اپنے کاموں میں غیبی رائے اور رہنمائی لیا کرتے تھے ۔اسلام کے آنے کے بعد ان تمام مشرکانہ رسومات کا قلع قمع کر دیا گیا اور انسانی ضرورت کے پیشِ نظر ’’استخارہ‘‘ کی ترغیب دی گئی جس میں مشرکانہ رسومات کے بجائے توحید کی بنیاد پر نماز اور دعا کا خوبصورت طریقہ سکھایا گیا۔
اسلام ایک کامل دین اور مکمل ضابطۂ حیات ہے جوزندگی کے ہر شعبہ اور موقع پر اپنے ماننے والوں کی رہنمائی کرتا ہے۔بندے کا اپنے معاملات میں اپنے خالق و مالک کارساز اللہ کی طرف رہنمائی اور مشکل کشائی کے لئے رجوع کرنایقیناً بندگی کے بنیادی تقاضوں میں سے ہے۔ بندۂ مومن یوں تو ہر حال میں خود کو اللہ کی مدد اور رہنمائی کا محتاج سمجھتا ہے اور ہر لمحہ تائید الہٰی کا آرزو مند رہتا ہے ، لیکن اگر معاملہ اہم ہو تو اس میں اللہ کی مدد اور تائید کابھی ہونا یقینا ًضروری امر ہے۔ اور استخارہ بندگی کے اسی تقاضے کو حسن و خوبی کے ساتھ تکمیل اور اللہ سے مدد چاہنے کا پسندیدہ طریقہ کار ہے۔
جب ہمیں کوئی اہم کام درپیش ہو تو اسے عملی جامہ پہنانے سے پہلے اس کے کرنے یا نا کرنے کا معاملہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کرنا اور اس سے اس بات کی رہنمائی کا طالب ہونا کہ اُس کی مشیت میں ہمارے لئے اس کام یا امر کو کرنے یا نا کرنے یا اختیار کرنے یا چھوڑ دینے میں سے کون سا پہلو خیر و بھلائی کا حامل ہے۔ اس کے بعد علمِ الہٰی اور پسند میں جو بات دنیا و آخرت کے اعتبار سے ہمارے لئے خیر کے پہلو کی حامل ہو، اللہ سے اس کے کرنے یا ہونے کی توفیق و اسباب کا طلب کرنا ’’استخارہ‘‘ کہلاتا ہے۔ استخارے کا یہ مسنون عمل دور کعات نفل نماز اور ایک دعا پر مبنی ہے۔
استخارہ کا لفظ خیر (خ۔ی۔ر) سے نکلا ہے، جس کا مفہوم ہے کسی امر میں اللہ سے خیر و بھلائی کا پہلو طلب کرنا۔ ایک مسلمان کے لئے اپنے تمام معاملات میں استخارہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابۂ کرامؓ کو بڑی سختی اور تاکید کے ساتھ استخارہ کی تعلیم دی اور امت کے لئے بھی استخارہ کو پسند فرمایا۔
حضرتِ جابر بن عبد اللہ انصاری ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں تمام معاملات میں استخارہ اسی طرح سکھایا کرتے تھے ،جس طرح قرآن کریم کی سورتوں کی تعلیم دیتے ۔ آپ ﷺ فرمایا کرتے کہ جب تم میں سے کوئی شخص کسی کام کا ارادہ کرے تو اسے چاہیے کہ دو رکعت نماز نفل ادا کرے اور پھر (استخارے کی) دعا مانگے۔(صحیح بخاری)
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا، اپنے معاملات میں استخارہ کرنے والاکبھی ناکام نہیں ہو گا اور جو شخص اپنے کاموں میں مشورہ کرتا ہو، وہ کبھی شرمندہ نہیں ہو گا۔(طبرانی) دیگر بہت سی احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو انسان اللہ سے تعلق قائم رکھتا ہے، اپنے ہر معاملے میں اپنے پروردگار سے خیر اور بھلائی کا طلب گار رہتا ہے، ہر کام میں مالک حقیقی سے کامیابی و کامرانی کا سوال کرتا رہتا ہے، ایسے بندے کو اللہ تعالیٰ کبھی بھی ضائع نہیں کرتا، بلکہ اس کا کام سنوار دیتا ہے۔ اس کے رزق ، عمر، مال و دولت اور اہل و عیال میں برکت عطا فرماتا ہے۔ مومن کی صفت یہ ہے کہ جب اسے کوئی معاملہ درپیش ہوتا ہے تو وہ اپنے مخلص ایمان والے بھائیوں سے مشورہ کرتا ہے، وہ بھی اسے صدق و اخلاص کے ساتھ بہترین اور فائدہ مند مشورہ دیتے ہیں، اس کے بعد وہ اپنے رب سے خیر اور بھلائی طلب کرتا ہے تو اس کے بگڑے ہوئے کام بھی سنور جاتے ہیں۔ اور اُسے ہر طرح بھلائی ہی بھلائی حاصل ہوتی ہے۔
استخارے کا مسنون طریقہ: مندرجہ بالا حدیث اور دیگر روایات سے ہمیں استخارے کا جو مسنون طریقہ معلوم ہوتا ہے ،وہ یہ ہے کہ جب کسی صاحب ایمان بندے کو کوئی ایسا معاملہ یا کام درپیش ہو کہ جس میں اس کام کے کرنے یا نا کرنے کا فیصلہ کیا جانا ہے یا دو چیزوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو کہ ہمارے لئے اللہ کی مشیت او راس کی رضا کے تحت خیرکا پہلو کس بات میں ہے؟ آیا اسے اختیار کرنے میں یا اس سے دست بردار ہوجانے میں، تو اس مقصد کے لئے صاحبِ معاملہ اپنا استخارہ خود کرے گا۔
خوب اچھی طرح وضو کرے، پھر دو رکعت نفل خشوع و خضوع سے بارگاہِ الہٰی میں ادا کرے اور اس کے بعد حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی سکھائی گئی دعائے استخارہ خوب اچھی طرح سمجھ کر مکمل عاجزی، سراپا انکساری، کامل بندگی اور حضوریِ قلب کے ساتھ اللہ سے مانگے ۔ اس دعا کے وسیلے سے اپنے کام یا درپیش معاملے کو اللہ کے حضور پیش کرے کہ یا اللہ میں نہیں جانتا کہ اس امر میں میرے لئے تیری مشیت کے اعتبار سے کیا بہتر ہے ،اس کام کو کرنا یا کہ نہیں کرنا، اس چیز کو اختیار کرنا یا اس سے دستبردار ہو جانا، بس تو اس معاملے میں میرے قلب و ذہن کو اپنی مشیت و حکمت کے ماتحت کر کے اسی طرف مائل کر دے، جس میں میری بہتری ہو۔
استخارے کے اس سارے عمل میں جو بات سب سے اہم ترین ہے، وہ استخارے کا ’’جواب‘‘ یا نتیجہ ہے۔ اس بارے میںعام آدمی سے خواص تک سب بہت ہی ذہنی خلجان اور توہم کا شکار ہیں۔ استخارے کے جواب یا نتیجے کے بارے میں ہمیں اپنا ذہن بالکل صاف کر لینا چاہئے، اس سارے عمل ، استخارے ، نماز اور دعا کے نتیجے میں ایسا کچھ کہیں بھی کسی روایت یا حکایت سے ثابت نہیں کہ استخارے کے بعدآپ جب سوئیں گے تو آپ کو کوئی خواب آئے گا اور اس میں غیب سے ندایا بشارت ہوگی یاکوئی کشف ہو گا کہ یہ کر لو یا یہ نہیں کرو، اسے اختیار کر لو یا چھوڑ دو، یا ہمیں کوئی چلتے رستے ملے گا اور کچھ ایسی مبہم یا ذو معنی بات کہہ کر غائب ہو جائے گا جس سے ہم اپنے استخارے کا نتیجہ اخذ کر لیں کہ اس کام میں ہاں کرنی ہے یا انکار کر دینا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ استخارے کے سارے عمل یعنی وضو، نماز دعا میں آپ نے اپنے معاملے میں اللہ سے اس کی مشیت و حکمت کے مطابق اللہ کی مرضی، پسندیدگی اور تائید و اعانت مانگی ہے ،لہٰذا اب آپ کا دل و دماغ کا رجحان اور میلان در پیش معاملے یا امر میں جس طرف مائل ہو جائیں یا ہاں اور نہیں میں سے جس پر ٹُھک جائیں ،بس وہی استخارے کا جواب ہے، وہی اللہ کی رضا اور پسند ہے، اب اسی کو اختیار کرنا ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ سے استخارہ کرنا اور اس کے فیصلے پر راضی ہونا انسان کی خوش بختی ہے اور اللہ سے استخارہ کرنا اور اس کے فیصلے پر راضی نہ ہونا انسان کی بد بختی کی علامت ہے۔‘‘(مسند احمد)
استخارہ کن کاموں یا امور کے لئے کیا جاتا ہے؟ یہ بھی ایک بہت اہم سوال ہے، یاد رکھیئے ! استخارہ صرف ان کاموںیا امور میں کیا جاتا ہے جو شریعت کی نظر میں جائز ، مباح اور حلال ہیں ، دوسرے استخارہ کسی ایسے جائز کام کے لئے کیا جاتا ہے جس میں ہاں یا نہیں کا جواب درکار ہو کہ یہ کام مشیتِ خدا وندی کے تحت کیا جائے یا نہیں ، مثلاً کوئی خاص مکان ، دکان ،زمین یا جائیداد خریدی جائے یا نہیں، فلاں حلال جائز کاروبار شروع کیا جائے یا نہیں یا فلاں شخص کے ساتھ کاروبار ی شراکت کی جائے یا نہیں ، بیٹی یا بیٹے کا رشتہ فلاں سے طے کیا جائے یا نہیں، کوئی خاص سفر کیا جائے یا نہیں، یہ اور اس طرح دیگر معاملات کا استخارہ کیا جائے گا۔
یہ بھی سمجھ لیں کہ استخارہ اس امر کا نہیں ہوتا کہ بالفرض میں بیمار ہوں تو استخارے سے معلوم ہو جائے کہ میری یہ بیماری فطری ہے یا کسی نے جادو ٹونہ کرادیا ہے، اگر بچوں کا رشتہ نہیں ہوتا ، تو استخارے میں دیکھ کر یہ بتا یا جائے کیا یہ قسمت کی بات ہے کہ بچوں کی شادی نہیں ہو رہی یا کسی نے عملیات کے ذریعے رکاوٹ ڈالی ہوئی ہے۔ ملازمت نہیں مل رہی، کاروبار یا دکان نہیں چل رہی ہے تو استخارہ کر کے دیکھا جائے کہ کہیں کسی نے بندش تو نہیں کردی۔ یہ اور ایسی دوسری بے شمار اوٹ پٹانگ اور بے سروپا باتیں اور لغو خیالات و توہمات میں سے کسی بھی امر کے لئے استخارہ نہیں ہے اور نا ہی ان لا یعنی باتوں کا جواب استخارے سے ملتا ہے ۔ استخارہ ان میں سے کسی بھی مقصد کے لئے نہیں ہے۔
استخارے کے ضمن میں سب سے اہم بات یہ بھی ہے کہ صاحبِ معاملہ کو اپنا استخارہ خود کرنا چاہئے یا اس استخارے سے اس کے جو دوسرے متعلقین وابستہ ہوں وہ بھی استخارہ کر سکتے ہیں۔ کسی ایسے آدمی سے استخارہ نہیں کرایا جائے جس کا درپیش معاملے سے کہیں دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہو اور وہ محض پیشہ ور کے طور پر استخارہ کرتا ہو۔ یہ امر قطعی غیر شرعی ہے ۔ استخارہ ایک مسنون عمل ہے اور اس عمل میں ہمیں خود کو مسنون طریقہ پر ہی رکھنا چاہئے، سنت یہی ہے کہ استخارہ خود ہی کیا جائے، کسی دوسرے غیر متعلقہ شخص سے نہیں کرایا جائے۔
استخارے کے بارے میں جو احادیث اور روایات ہیں، اُن میں کہیں کوئی ایسی روایت نہیں ملتی کہ رسول اللہ ﷺ سے کسی صحابیؓ نے استخارے کے لئے کہا ہو کہ یارسول اللہ ﷺ میرا اس کام میں استخارہ فرمادیں اور ایسی بھی کوئی روایت نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کسی صحابیؓ کا استخارہ کیا ہو، معلوم ہوا کہ جہاں استخارہ کرنا سنت ہے ،وہیں اپنا استخارہ خود کرنابھی سنت ہے، کسی اور سے استخارہ کرانا خلافِ سنت ہے۔ ایک صاحبِ عقل مومن کو اپنے تمام امور کو براہِ راست نبی کریم ﷺ کے اسوۂ حسنہ اور تعلیمات و سنت کے مطابق انجام دینا چاہیں۔ آج کل استخارے کے نام پر جو خلط ملط ہو رہا ہے، ان سے ہر حال میں بچنا چاہیے۔