Ishq Paichan Meri la-zawal mohabbat ki dastaan. Aap Beeti

Ishq Paichan Meri la-zawal mohabbat ki dastaan. Aap Beeti

عشق پیچاں: میری لازوال محبت کی داستان۔ آپ بیتی

کچھ کہانیاں محض الفاظ کا مجموعہ نہیں ہوتیں، وہ دل کی گہرائیوں سے نکلے جذبات کی عکاسی ہوتی ہیں۔ آج میں آپ کے سامنے اپنے بچپن کا ایک ایسا ہی انمول باب پیش کر رہا ہوں، ایک سچی داستان جو محبت، لگن اور ایک لازوال رشتے کی گواہ ہے۔

یہ بات ہے سن 1994 کی، جب میں نویں جماعت میں زیرِ تعلیم تھا۔ دادی کو بچپن سے ہی جانوروں، پودوں، پرندوں وغیرہ کا بے پناہ شوق تھا۔ اور یہی شوق شاید ان کی وجہ سے مجھے بھی وراثت میں مل گیا تھا۔ اللہ بخشے، دادی ہمیشہ کہا کرتی تھیں کہ “عظیم اس معاملے میں سارے کا سارا میرے پر گیا ہے!”

پودوں کے معاملے میں تو خیر کوئی بھی منع نہیں کرتا تھا، لیکن جب مجھے کوئی جانور یا پرندہ لینا ہوتا یا پالنا ہوتا، تو دوسرے گھر والوں کی لاکھ مخالفت کے باوجود، مجھے دادی جان کی بھرپور حمایت حاصل رہتی تھی، اور پھر وہ جانور یا پودا میں لے لیا کرتا۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں تھا کہ مجھے صرف خریدنے کی حد تک شوق تھا۔ میں بالکل ان کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتا تھا۔ آسان لفظوں میں، اپنے کھانے سے پہلے ان کے کھانے کا خیال میرے ذہن میں ہر وقت ایک اٹل ذمہ داری کی طرح سوار رہتا۔

میں نے مرغیاں، طوطے، کبوتر، خرگوش، مچھلیاں، بطخیں، یہاں تک کہ دو چھوٹے کچھوے بھی پال رکھے تھے۔ اور بات اگر پودوں کی کروں، تو گھر کا صحن، اوپر والا پورشن اور کیاریاں وغیرہ خوبصورت پودوں اور پھولوں سے سجی ہوئی ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ پودینہ، دھنیا، لیموں وغیرہ کے پودے بھی بڑے گملوں میں میں نے لگائے ہوئے تھے۔ ان پودوں میں گویا میری جان بستی تھی۔

گرمیوں کی چھٹیوں میں ایک بار دادی جان اپنے بڑے بھائی حاجی عبدالغنی، جو کہ لاہور کے ایک رہائشی علاقہ باغبانپورہ میں رہتے تھے، کے گھر چار پانچ دن رہنے کے لیے گئیں۔ ان کے گھر میں ایک بیل، جس کو عشقِ پیچاں کے نام سے جانا جاتا ہے، بہت ہی گھنی اور خوبصورت تھی۔ گھر آتے وقت دادی جان وہاں سے اس بیل کے چند بیج لے آئیں۔

اس دن جب میں ٹیوشن سے گھر آیا، تو دادی جان حسبِ معمول اپنے نورانی چہرے کے ساتھ برآمدے والے صوفے پر بیٹھی ہوئی تھیں اور بے صبری سے میرا انتظار کر رہی تھیں۔ میرے صحن میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے تو میرے “میاں مٹھو” نے میرا نام لیا، “زیـم، زیـم” (عظیم، عظیم)۔ اور جب پیاری دادی جان نے طوطے کی زبان سے میرا نام سنا، تو فوراً ہی مجھے اپنے پاس بڑے ہی پیار سے بلایا۔ پنجابی میں نہایت محبت سے، رس بھرے انداز میں پکارا: “میرا عظیم آ گیا اے؟ ایتھے آ، میرے کول بہہ جا!”

میں بھاگا بھاگا دادی کے پاس گیا، ان کے ہاتھ چومے، اور دادی جان نے بھی میرے چہرے پر بے شمار بوسے دیے۔ پھر مجھے بڑے ہی پیار سے اپنے پاس بٹھا کر، اپنے روئی جیسے نرم ہاتھوں کے ساتھ دوپٹے کا پلو کھولتے ہوئے کہنے لگیں: “یہ دیکھو! میں تمہارے لیے کیا لے کر آئی ہوں!”
میں تجسس بھری نگاہوں سے دادی جان کو دیکھنے لگا۔ دوپٹے کا پلو دادی نے اس قدر زور سے باندھ رکھا تھا کہ آخر میں انہیں اپنے دانتوں کا سہارا لینا پڑا اسے کھولنے کے لیے، اور میرا تجسس مزید بڑھتا چلا گیا۔
کچھ لمحوں کی کوشش کے بعد جب انہوں نے پلو کو کھولا، تو اس میں چنے کے سائز کے برابر کالے رنگ کے پانچ بیج پڑے ہوئے تھے۔

انتہائی محبت سے “بسم اللہ” پڑھتے ہوئے انہوں نے وہ سارے کے سارے بیج میری ہتھیلی میں رکھ دیے اور کہنے لگیں: “جاؤ، میرا بیٹا، کیاری میں ان کو اگا لو۔”
میری خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی، کیونکہ میں جانتا تھا کہ اگر دادی جان مجھے یہ دے رہی ہیں، تو یقیناً بہت ہی کوئی خوبصورت پودا یا بیل ہوگی۔ ویسے بھی گرمیوں کی اتھاہ چھٹیاں چل رہی تھیں، اس لیے یہ میرے لیے ایک پروجیکٹ سے کم نہیں تھا۔

اگلے روز جب گھر والے ابھی سبھی سو رہے تھے، تو میں نے گھر کی ڈیوڑھی سے متصل کیاری میں، جہاں پر پہلے سے ہی ایک امرود کا اور پپیتے کا درخت لگا ہوا تھا، زمین کی گوڈی کر کے، اللہ کا نام لے کر پانچ کے پانچ بیج تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بڑے ہی پیار سے زمین میں دبا دیے، اور پھر بعد میں انتہائی احتیاط سے ان کو پانی بھی دے دیا۔

اگلے چار پانچ روز میں نے بہت ہی بے صبری سے گزارے، اور پھر کچھ روز بعد ان پانچ میں سے تین بیجوں کے اوپر ہلکا ہلکا سا سبز رنگ نظر آنے لگا۔ گویا کہ یہ پودے زمین کا سینہ چیر کر نئی دنیا میں آ رہے تھے۔ دو بیج شاید ایسے تھے جو ضائع ہو گئے تھے۔
میں خوشی سے نہال ہو گیا۔ ان کی خوب حفاظت کی۔ لیکن کچھ روز بعد، جب کہ وہ کچھ ہی انچ لمبے تھے، دو پودے محلے کی بلیوں کی لڑائی کی زد میں آ گئے۔ منڈیر پر لڑتی بلیوں میں سے ایک نے جو چھلانگ لگائی، تو سیدھا ان پودوں کے اوپر ہی لگائی۔

میں بہت غمگین ہو گیا، لیکن میں نے اس آخری پودے کی حفاظت کے وہ تمام اقدامات اٹھائے جو میں کر سکتا تھا۔ اس کے گرد میں نے چھوٹی چھوٹی نوکیلی لکڑیوں کی باڑ بنا کر اوپر ایک گتا بھی رکھ دیا، تاکہ اوپر سے بھی کوئی چیز نقصان نہ پہنچا سکے۔

جو لوگ عشقِ پیچاں کی بیل کے بارے میں جانتے ہیں، وہ یہ ضرور جانتے ہوں گے کہ یہ ایسی بیل ہے جو روزانہ کی بنیادوں پر بہت ہی تیزی سے بڑھتی ہے۔ ایسا ہی کچھ میری بیل کے ساتھ بھی ہوا۔ دو ہفتے کے اندر اندر وہ بیل دو فٹ تک پہنچ گئی، اور مجھے سمجھ سے باہر تھا کہ میں اس کو کس طرح سنبھالوں۔
آخر دادی جان سے مشورہ کیا، تو دادی جان نے مجھے کہا: “اب وقت ہے کہ رسی وغیرہ لے کر اس بیل کو راستہ فراہم کرو۔ جہاں جہاں تم اس کو لے جانا چاہتے ہو، یہ تمہاری بات مانے گی اور وہیں جائے گی۔”

اور پھر ایسا ہی ہوا۔ سب سے پہلے میں نے اس بیل کی رسی کو اپنی چھوٹی سی گیلری، جو کہ گھر کی ڈیوڑھی کے اوپر موجود تھی، اس کی چھت تک پہنچایا۔ تین چار ہفتوں کے اندر اندر وہ بیل اس قدر پھیلی کہ اس نے گیلری کی چھت کو پوری طرح ڈھانپ لیا۔

اس کے بعد میں نے کچھ اور رسیاں لیں اور گیلری سے وہ رسیاں اپنے گھر کی دوسری منزل تک لے گیا۔ اور دادی جان کے کہنے کے مطابق، عشقِ پیچاں نے بھی ان رسیوں کو اپنی جکڑ میں لیتے ہوئے اوپر تک تیزی سے پھیلنا شروع کر دیا۔
بیل کی گھنی شاخوں کا رخ میں نے دوسری منزل پر موجود اپنے بڑے پنجرے کے اوپر اور سائیڈ سے بھی گزارا، جہاں پر تقریباً سو کے قریب آسٹریلین طوطے موجود تھے۔ بھری بھری اس بیل کے پنجرے کے پاس سے گزرنے پر طوطے بھی کچھ زیادہ ہی خوش تھے۔
یہاں یہ بتاتا چلوں کہ جب یہ طوطے لیے تھے، تو ان کی تعداد صرف 10 تھی، جو کہ دو سال میں 100 کے قریب پہنچ چکی تھی۔

چند ہفتوں میں ہی عشقِ پیچاں اس قدر پھیلی کہ اس نے گویا پورے گھر پر ایک چھت سا سماں باندھ دیا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس بیل کے ساتھ میرا پیار اور محبت ایک عجیب رنگ اختیار کرتا جا رہا تھا۔

ان دنوں گرمیوں کی چھٹیاں تین مہینے کی ہوا کرتی تھیں۔ ان تمام چھٹیوں میں میری روٹین کا یہ حصہ رہا کہ میں صبح صبح فجر کی نماز کے بعد پائپ لگا کر تمام پودوں کو پانی دینے کے بعد اپنی عشقِ پیچاں کو خاص وقت دیتا۔ گویا اس کا ایک ایک پتا پانی سے دھوتا اور وہ نکھر جاتی۔ میں اپنی عشقِ پیچاں کے سامنے کھڑا ہوتا اور اس کے ہر پتے، ہر شاخ کو پیار سے چھوتا، جیسے کسی عزیز کا چہرہ سہلایا جاتا ہے۔

سورج کی سنہری کرنیں جب عشقِ پیچاں کے نازک پتوں سے چھن کر میرے چہرے تک پہنچتیں، تو یوں لگتا جیسے قدرت بھی میرے اس لمحے کو مقدس جان کر دعا دے رہی ہو۔
کبھی کبھار بارش کی ہلکی ہلکی بوندیں عشقِ پیچاں کے پتوں پر موتیوں کی طرح جم جاتیں، اور جب ان پر روشنی پڑتی، تو وہ گویا قوس و قزح کی جھلک دکھاتیں۔

پائپ سے پانی کی ٹھنڈی پھوار جب اس پر پڑتی، تو وہ مزید نکھر اٹھتی، اس کے پتوں پر موتیوں کی طرح چمکتے قطرے ایسے محسوس ہوتے جیسے وہ بھی میری محبت کا جواب دے رہے ہوں۔
یہ صرف پانی دینا نہیں تھا، یہ تو میری روح کی آبیاری تھی، اس سے باتیں کرنا اور اس کے ہر پھول کو کھلتا دیکھنا میرے لیے کسی سحر سے کم نہ تھا۔
صبح صبح کا وہ حسین وقت اور عشقِ پیچاں کی ٹھنڈک، اس تازگی اور روحانی سکون کو بیان کرنے کے لیے کاش میرے پاس کوئی الفاظ ہوتے!

پھر ایک صبح مجھے بیل کو پانی دیتے وقت اس کے بڑے بڑے پتوں کے نیچے کچھ کونپلیں نظر آئیں۔ ایک، دو، تین، چار، اور پھر جیسے جیسے میں گھنی شاخوں کے نیچے ڈھونڈتا گیا، مجھے مزید کونپلیں ملتی گئیں۔ اگلے چند روز میں پوری بیل جگہ جگہ سے خوبصورت اور نازک پھولوں سے بھری ہوئی تھی۔ ان کی رنگت باہر سے دودھیا سفید اور اندر کی جانب سے یہ بنفشی رنگ کے تھے۔ صراحی سے مشابہت رکھنے والے ان پھولوں کی عمر صرف دو دن ہوا کرتی اور پھر یہ ایک چھوٹے سے برقی قمقمے کی شکل اختیار کر لیتے، جس میں پانچ سے چھ کالے رنگ کے بیج ہوا کرتے تھے۔

ہو سکتا ہے کہ بہت سے سننے والوں کو یہ بات عجیب سی لگے، لیکن میں اکثر ہی اپنے پودوں کے ساتھ باتیں کیا کرتا تھا، اور جب سے عشق پیچاں نے ہمارے آنگن میں اپنے خوبصورت رنگ پھیلائے تھے، میری صبح کا وقت اکثر اس کی خوبصورت رنگین چھاؤں میں گزرتا تھا۔ اس کو باقاعدگی سے پانی دینا، پائپ کے ساتھ اس کے پتوں کو دھونا، اس کی کاٹ چھانٹ کرنا، اور سارے عمل کے دوران اس کے ساتھ دل کی باتیں کرنا۔

گہرے سبز پتے، سفید اور بنفشی پھول تو اس کو خوبصورت بناتے ہی تھے، لیکن یہ اور بھی زیادہ خوبصورت لگتی جب رنگ برنگی تتلیاں اور بھنورے اس کے ارد گرد منڈلاتے، اور پھر گویا فاختہ کے جوڑے نے گھونسلا بنا کر وہاں پر انڈے دے کر اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیے۔ صبح صبح فجر کے وقت چڑیوں کی چہچہاہٹ، بڑے پنجرے میں موجود آسٹریلین طوطوں کی رنگ برنگی بولیاں، فاختہ کے جوڑے کی مخصوص آواز اور اجلی نکھری عشقِ پیچاں کی بیل۔۔۔ یہ سحر انگیز منظر کسی خوابی دنیا سے کم نہ ہوتا۔

اگلے تین سالوں میں یہ عشقِ پیچاں کی بیل اس قدر پھلی پھولی کہ گلی میں موجود کئی گھر والوں نے رسی کے ساتھ اس کی شاخوں کا رخ اپنی طرف ایسا موڑا کہ گلی کے اوپر ایک سایہ دار چھت سی بن گئی۔

اسی دوران میٹرک بھی کیا اور پھر گورنمنٹ کالج لاہور سے ایف اے بھی، اور پھر وہ وقت آ پہنچا جب مجھے لندن آنا تھا۔ اپنے جانوروں اور پودوں کا خیال رکھنا، ان کو وقت دینا اور خاص طور پر عشقِ پیچاں کے ساتھ دن کا کچھ حصہ گزارنا ابھی بھی میری زندگی کا معمول تھا۔

لندن آنے سے چند ہفتے پہلے میں نے تمام جانور اور پرندے ایک ایک کر کے ایسے لوگوں کے حوالے کر دیے جو ان کا شوق رکھتے تھے۔ لیکن عشقِ پیچاں کی شاخوں سے لپٹے ہوئے بڑے پنجرے میں موجود آسٹریلین طوطے، جن کی تعداد 100 سے بھی زیادہ تجاوز کر چکی تھی، میں نے وہیں رہنے دیا۔ عشقِ پیچاں کا طوطوں کے ساتھ، اور طوطوں کا عشقِ پیچاں کے ساتھ، اور ان دونوں کا میرے ساتھ ایک خاص ربط تھا، ایک نہ نظر آنے والا تعلق۔

میں لندن آنے کے بعد گاہے بگاہے طوطوں کے متعلق اور عشقِ پیچاں کے متعلق دادی جان اور امی جان سے پوچھتا رہتا۔ دو ماہ کے بعد امی جان نے بتایا کہ “طوطے اب آپس میں بہت لڑتے بھی ہیں اور مرنے بھی لگے ہیں، حالانکہ خوراک اور پانی وغیرہ میں کوئی کمی نہیں۔ لہٰذا ہم انہیں کسی ایسے شخص کو دے رہے ہیں جو ان کا خیال رکھ سکے۔”
میں نے بادلِ نخواستہ اس چیز کی اجازت دے دی، اور ابو وغیرہ نے بہت ہی بھاری دل کے ساتھ وہ طوطے کسی کو دے دیے۔

عشق پیچاں کے متعلق میں باقاعدگی سے رپورٹ لیتا تھا اور اس کے متعلق پوچھتا رہتا تھا، اور پھر کچھ ہفتوں بعد امی جان نے بتایا کہ عشق پیچاں “پہلے جیسی نہیں رہی، سوکھتی جا رہی ہے۔ پھول لگنے بہت کم ہو گئے ہیں، تتلیاں اور بھنورے بھی ادھر کا رخ نہیں کرتے، فاختہ کا جوڑا بھی بیل پر اپنا گھر چھوڑ کر جا چکا ہے۔”

مجھے لندن آئے ہوئے آٹھ مہینے ہو چکے تھے کہ پھر ایک دن امی جان نے ٹیلی فون پر بتایا کہ “باوجود اس کے کہ وقت پر پانی بھی دیا، کھاد بھی ڈالی، لیکن تمہاری عشق پیچاں سوکھتے سوکھتے سوائے خشک لکڑیوں کے کچھ نہیں رہی۔ جو کبھی گہرے سبز پتوں اور سفید بنفشی پھولوں سے بھری رہتی تھی، آج اس کے اوپر کوئی ایک پیلا پتا بھی نہیں رہا۔ سو بیٹا، ہمیں انتہائی دکھ سے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمیں اس کو اب کاٹنا پڑے گا، کیونکہ اس کی وجہ سے گھر میں اور محلے میں بہت گند پڑ رہا ہے۔”

آہ! میری عشقِ پیچاں! میں نے بڑے ہی پیار سے تمہیں اگایا تھا۔۔۔ آنکھیں نم تھیں اور دل اداس۔

پھر دو سال بعد میں پاکستان آیا اپنے گھر والوں کو ملنے، اپنے دوست احباب کو ملنے۔۔۔ اور پھر کچھ ہی دیر بعد میں اس کیاری کے بالکل اس طرف کھڑا تھا جہاں پر میں نے کبھی عشق پیچاں کو لگایا تھا۔ وہ وہاں پر موجود نہیں تھی، لیکن ہوا کے ایک جھونکے کے ساتھ شاید عشق پیچاں کی ایک سرگوشی سی کانوں میں محسوس ہوئی:

“محبت صرف انسان ہی تو نہیں کرتے، جانور، پرندے اور شاید پودے بھی اس احساس کا ظرف رکھتے ہیں۔ اور یہ میری تم سے محبت ہی تو تھی جس نے مجھے جڑ سے پتّے تک زندہ رکھا، میری ہر سانس تمہاری یاد کے تانے بانے میں الجھی رہی، جیسے میرا وجود انہی دھاگوں سے بُنا جا رہا ہو۔ لیکن جب تم چلے گئے، تو میرے سبز وجود پر جیسے خزاں اتر آئی۔ سورج وہی تھا، بارشیں وہی تھیں، ہوائیں ویسی ہی چلتی تھیں، مگر ان میں وہ لمس، وہ جذبہ باقی نہ رہا جو تمہارے ہاتھوں سے پانی بن کر مجھ تک آتا تھا۔ تمہاری آواز، تمہاری آہٹ، تمہاری نظروں کی چمک۔۔۔ سب کچھ جیسے ہوا میں تحلیل ہو گیا۔ میرا ہر پھول تمہارے لمس کو ترستا رہا، میرے پتے تمہاری سانسوں کی نمی ڈھونڈتے رہے۔ ایک دن، ایک شام، ایک موسم۔۔۔ تم بغیر کچھ کہے چلے گئے، اور میں ایک ایک لمحہ پگھلتی رہی۔ نہ تتلیاں لوٹیں، نہ بھنورے، نہ وہ پرندے جو میری چھاؤں میں چہچہاتے تھے۔ اور پھر میں خاموش ہو گئی، بلکل خاموش۔
اب میں کہیں نہیں ہوں، مگر شاید کبھی کسی ہوا کے جھونکے میں، کسی نمی کی خوشبو میں، یا تمہاری پلکوں پر ٹھہرے ایک قطرے میں میری وہ خاموش سرگوشی اب بھی زندہ ہو۔۔۔ آواز نہیں دیتی، بس کہیں اندر، بہت اندر گونجتی ہے۔”

فرطِ جذبات سے میری آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ وہ آنسو جو صرف پلکوں سے نہیں، دل کے نہاں خانوں سے اُمڈے تھے۔ دبے ہوئے جذبوں، چھپی ہوئی یادوں، اور ایک ایسی خاموش محبت کی ترجمانی کرتے ہوئے، جس کا کوئی گواہ نہیں تھا۔ میں اس لمحے کچھ کہہ نہیں سکا، نہ ہی کچھ سوچ سکا۔ بس یوں لگا جیسے میرے اندر کوئی خاموشی سے ٹوٹ رہا ہو، جیسے دل کی دیواروں میں ایک انجانی سی دراڑ رینگ رہی ہو، بغیر آواز کے، بغیر شکوے کے۔
میرے سامنے وہ جگہ تھی جہاں کبھی زندگی سانس لیتی تھی، اور اب خاموشی کا ڈیرہ تھا۔ میں بہت دیر تک وہاں کھڑا رہا، بالکل ساکت، جیسے اپنے ہی اندر سے کچھ سننے کی کوشش کر رہا ہوں۔ لیکن ان آنسوؤں کو سمجھنے والا، اس خاموش فریاد کو سننے والا شاید میں خود ہی وہاں پر موجود تھا، کوئی اور نہیں۔ اور شاید یہی سب سے زیادہ تنہا کر دینے والا احساس تھا۔

بہت سے لوگ بچپن کی محبت پر یقین رکھتے ہیں، اور میری بچپن کی محبت تھی وہ عشق پیچاں کی بیل، جو آج بھی میری یادوں میں ایک معطّر خوشبو کی طرح، ایک زندہ حقیقت کی مانند مہکتی ہے، اور میری روح کے ہر گوشے میں جا بسی ہے۔ وہ بیل، جو میرے لمس سے نمو پاتی رہی، میری باتوں سے بہلتی رہی، اور میرے وجود کے آس پاس چپ چاپ پھیلتی گئی جیسے وہ خاموشی سے مجھے سمجھتی ہو، اور میرے ساتھ جیتی ہو۔
اس کی یاد، اس کی مہک، آج بھی میرے دل کو چھو کر ایک عجیب سی کیف و سرور سے بھر دیتی ہے۔ وہ صرف ایک بیل نہیں تھی، وہ تو میرے بچپن کی ہمراز تھی، میری تنہائیوں کی ساتھی، اور میرے دل کا وہ کونا، جو برسوں بعد بھی ویسا ہی محفوظ ہے جیسے اُس دن تھا، جب میں اسے چھوڑ کر گیا تھا۔ میرے بچپن کا سب سے حسین خواب، جو آج بھی میری پلکوں پر نمی بن کر ٹھہر جاتا ہے۔ ایک ایسی محبت کی داستان، جو کبھی فنا نہیں ہو سکتی۔

عشق پیچاں: میری لازوال محبت کی داستان

(نیچے دی گئی یادگار تصویر میرے بچپن کی ہی ہے اور بیک گراؤنڈ میں آپ خوبصورت عشق پیچاں کی بیل دیکھ سکتے ہیں جو ابھی مزید بڑھ رہی تھی)

پوسٹ پسند آئے تو لائک اور شیئر ضرور کیجئے۔

اللہ تعالی کا شکر ہر اس نعمت کے لیے جو اس نے ہمیں عطا کی۔

دعا کا طالب
محمد عظیم حیات
لندن

Shopping Cart1

Subtotal:  1,000

View cartCheckout