
کمرہ جماعت میں استاد صاحب لیکچر دے رہے تھے۔ لیکچر ختم کرنے کے بعد انہوں نے شاگردوں سے کہا کہ اگر وہ کوئی سوال پوچھنا چاہیں تو پوچھ سکتے ہیں۔
ایک شاگرد نے استاد صاحب سے اجازت طلب کی اور ان سے پوچھا:
“استاد جی!
بحیثیت مسلمان آخرت پر ہم سب کا ایمان ہے اور میرا سوال اسی متعلق ہے کہ آخرت میں حساب کتاب کیسے ہوگا؟”
استاد صاحب کچھ دیر کے لیے سوچتے رہے اور پھر جماعت میں موجود بچوں سے پوچھا کہ کوئی اس سوال کا جواب دینا چاہے گا؟ کمرۂ جماعت میں گہری خاموشی چھا گئی اور کوئی بھی جواب نہ دے سکا۔
اس کے بعد استاد صاحب اپنی جگہ سے اُٹھے اور سارے شاگردوں میں کچھ پیسے بانٹنے لگے۔
انہوں نے:
پہلے لڑکے کو سو درہم،
دوسرے کو پچھتر،
تیسرے کو ساٹھ،
چوتھے کو پچاس،
پانچویں کو پچیس،
چھٹے کو دس،
ساتویں کو پانچ،
اور جس لڑکے نے یہ سوال پوچھا تھا، اسے فقط ایک درہم دیا۔
لڑکا بلاشبہ استاد کی اس حرکت پر دل گرفتہ اور ملول تھا۔ وہ استاد صاحب کی اس بانٹ سے بہت زیادہ حیران تھا، اور اسے اپنی توہین محسوس ہو رہی تھی کہ استاد نے آخر اسے ہی سب سے کمتر اور کم مستحق کیوں جانا؟
استاد صاحب نے مسکراتے ہوئے سب کو دیکھتے ہوئے کہا:
“سب لڑکوں کو چھٹی! اب تم سب لوگ جا کر اپنی اپنی مرضی سے ان پیسوں کو پورا پورا خرچ کرو۔ اب ہماری ملاقات ہفتے والے دن بستی کے نانبائی کے تندور پر ہوگی۔”
ہفتے والے دن سارے طالبعلم نانبائی کے تندور پر پہنچ گئے، جہاں استاد جی پہلے سے ہی موجود سب کا انتظار کر رہے تھے۔ سب لڑکوں کے آ جانے کے بعد استاد نے انہیں بتایا کہ:
“تم میں ہر ایک اس تندور پر چڑھ کر مجھے اپنے اپنے پیسوں کا حساب دے گا کہ کہاں کہاں خرچ کیے۔”
پہلے والے لڑکے، جسے ایک سو درہم ملے تھے، کو دہکتے تندور کی منڈیر پر چڑھا کر استاد نے پوچھا:
“بتاؤ، میرے دیے ہوئے سو درہم کیسے خرچ کیے تھے؟”
جلتے تندور سے نکلتے شعلوں کی تپش اور گرم منڈیر کی حدت سے پریشان لڑکا منڈیر پر ایک پیر رکھتا اور دوسرا اٹھاتا، خرچ کیے ہوئے پیسوں کو یاد کرتا اور بتاتا کہ:
“پانچ کا گڑ لیا تھا، دس کی چائے، بیس کے انگور، پانچ درہم کی روٹیاں…”
اور اسی طرح باقی کے خرچے۔
لڑکے کے پاؤں حدت سے جل رہے تھے تو باقی کا جسم تندور سے نکلتے شعلوں سے جھلس رہا تھا، حتیٰ کہ اتنی سی دیر میں اسے پیاس بھی لگ گئی تھی اور الفاظ بھی لڑکھڑانا شروع۔ بمشکل حساب دے کر نیچے اترا۔
اس کے بعد دوسرا لڑکا، پھر تیسرا، اور پھر اسی طرح باقی لڑکے، اپنے اپنے پیسوں کا حساب دینے تندور کے منڈیر پر چڑھتے اور اترتے رہے، حتیٰ کہ اس لڑکے کی باری آ پہنچی جسے ایک درہم ملا تھا۔
استاد نے اسے بھی کہا کہ:
“تم بھی تندور پر چڑھ جاؤ اور اپنا حساب دو۔”
لڑکا جلدی سے تندور پر چڑھا، بغیر کسی توقف کے بولا کہ:
“میں نے اُس ایک درہم سے گھر کے لیے دھنیا خریدا تھا!”
اور ساتھ ہی مسکراتا ہوا نیچے اتر کر استاد کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا، جبکہ باقی کے لڑکے ابھی تک نڈھال بیٹھے اپنے پیروں پر پانی ڈال کر ٹھنڈا کر رہے تھے۔
استاد نے سب لڑکوں کو متوجہ کر کے اس لڑکے کو خاص طور پر سناتے ہوئے کہا:
“بچو! یہ قیامت والے دن کے حساب کتاب کا ایک چھوٹا سا منظر نامہ تھا۔ ہر انسان سے، اسے جس قدر عطا کیا گیا، کے برابر حساب ہوگا۔”
لڑکے نے استاد کو محبت سے دیکھتے ہوئے کہا کہ:
“آپ نے جتنا کم مجھے دیا، اس پر مجھے رشک اور آپ کی عطا پر پیار آ رہا ہے۔ تاہم اللہ تبارک و تعالیٰ کی مثال تو بہت اعلیٰ و ارفع ہے۔”
پوسٹ پسند آئے تو صدقہ جاریہ کے طور پر شیئر ضرور کیجئے۔۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے پیارے محبوب ﷺ کے صدقے اپنے حساب کی شدت سے بچائے، اور ہمارے ساتھ معافی اور درگزر والا معاملہ فرمائے۔ آمین۔
دعا کا طالب
محمد عظیم حیات
لندن