گندے کپڑے
Paulo Coelho ازقلم
ایک نیا شادی شدہ نوجوان جوڑا نِیلے سمندر کے کنارے ایک خوبصورت محلہ میں آباد ہو گیا۔ پہلی شام کھڑکی سے باہر انہوں نے دیکھا کہ نِیلا سمندر شدید کندن رنگ ہو گیا ہے۔ غروبِ آفتاب کے ہوشربا منظر کے سامنے دونوں چائے پیتے ہوئے اپنی قسمت پر رشک کرنے لگے۔ شب تک دونوں نے گھر کو رہنے قابل بنا دیا۔ کھڑکی کے قریب میز اور دو کرسیاں رکھ دِیں، شمع افروز کھانا کھایا اور پھر سیاہ سمندر کی آواز سُنتے ہوئے اُنہیں نیند آ گئی۔
اگلی صبح کھڑکی کے قریب ناشتہ کرتے ہوئے لڑکی نے دیکھا کہ ایک ہمسائی اپنی زنگ آلود قِسم کی دیوار پر پِھیکے رنگوں والے کپڑے پھیلا رہی ہے۔ لڑکی نے شوہر سے کہا ”ہمسائی کو شاید کپڑے دھونے نہیں آتے۔ یا پھر اُس کا صابون غیرمیعاری ہو گا۔ دیکھو کتنے لگ گندے کپڑے رہے ہیں۔ یقیناً اُن کپڑوں سے بُو بھی آتی ہو گی۔“ شوہر نے ذرا سا اُٹھ کر ہمسائی اور پھیلے ہوئے کپڑوں کی جانب دیکھا اور واپس بیٹھ کر خاموشی سے ناشتہ کرنے لگا۔
لڑکی نے کہا ”کل تو پتا نہیں چل رہا تھا مگر سمندر کا رنگ اِتنا بھی نِیلا نہیں جیسا کہ مشہور ہے۔“ اُس دن کے بعد جب بھی ہمسائی کپڑے دھو کر پھیلاتی، لڑکی یہی اعتراضات پھر سے شروع کر دیتی۔ ایک دن تو اُس نے یہ بھی کہہ دیا کہ ”مجھے خود جا کر اُسے سکھانا پڑے گا کہ کپڑے کیسے دھوتے ہیں۔ اُسے شاید اندازہ نہیں کہ اُس کے گندے کپڑے کی وجہ سے ہمارا منظر کتنا خراب ہو جاتا ہے۔ کاش ہم اس جزیرے کے بجائے کسی اور جزیرے میں آباد ہو جاتے تو شاید سمندر بھی زیادہ خوبصورت ملتا۔“
کچھ دن مزید گزر گئے۔ ایک دن وہ صبح اُٹھی اور ناشتہ تیار کر کے کھڑکی کے قریب میز پر لگا دیا۔ آج ماحول میں کچھ تبدیلی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ خوبصورت سمندر جس کے خواب وہ دیکھتی رہی تھی، آج وہی نِیلا سمندر اسے کھڑکی میں سے نظر آ رہا تھا۔ کچھ دیر میں ہمسائی معمول کے مطابق اپنی چھت پر آئی اور نہایت صاف شفاف کپڑے دیوار پر پھیلا دیے۔ آج اُسے تمام منظر پہلی بار بہت ہی خوبصورت لگ رہا تھا۔ لڑکی نے شوہر سے کہا ” واہ کیا ہی خوبصورت دِن ہے اور یہ دیکھو آخرکار اِس ہمسائی نے کپڑے دھونا بھی سیکھ ہی لیے۔ جانے اُسے کِس نے سکھایا ہو گا۔ چلو اچھا ہی ہوا۔“
شوہر نے نِیلے سمندر کو دیکھتے ہوئے چائے کی طویل چسکی لی اور اس کے بعد اپنی بیوی کو دیکھا اور کہا ”آج مَیں صبح جلدی اُٹھ گیا تھا۔ سوچا کہ ہم نے کبھی اپنی کھڑکی صاف ہی نہیں کی۔ بس آج اندر اور باہر سے اس کی خوب صفائی کی ہے۔“
لڑکی نے شوہر کی بات سُنی اور خاموشی سے دوبارہ باہر ہمسائی اور نِیلے سمندر کو دیکھنے لگی۔ کھڑکی اُس کی اپنی دھول زدہ تھی مگر اُسے ہمسائی، اُس کے دھوئے ہوئے کپڑوں اور سمندر میں ہی کمیاں نظر آ رہی تھیں۔
زندگی کا بھی معاملہ یہی ہے۔ جو کمیاں خود ہم میں ہوتی ہیں، وہی دوسروں میں نظر آنے لگتی ہیں۔ ہمارے قلب و ذہن جیسے ہوں گے، ویسا ہی منظر بھی ہمیں دکھائی دے گا۔ لہذا، دوسروں کے متعلق فیصلے کرنے میں جلد بازی نہ کرنا خصوصاً جبکہ تُم غصہ، حسد، منفی میلان یا حسرت میں ہو۔ یہی وہ دھول ہے جو دنیا کے متعلق تمہیں دھوکوں میں رکھتی ہے۔
ہاں، ایک دھول شدید محبت بھی ہوتی ہے مگر ایسی دھندلاہٹ میں محبوب اصل سے زیادہ خوبصورت اور الوہی نظر آتا ہے۔ اگر قلب و ذہن کا آئنہ شفاف نہیں کرنا تو پھر کم از کم یہی دھول اپنا لو۔ محبت کی وجہ سے کسی کو ضرورت سے زیادہ برتر سمجھنا بہتر ہے بجائے کہ حسد یا خودپسندی میں آ کر کسی کو کم تر سمجھا جائے۔