قدرت اللہ شہاب کا اپنے سفر حج کی روداد بیان کرتے ہوئے ایک زبردست فن پارہ
لکھتے ہیں:
نالے کے کنارے میرے بالکل قریب بہاول پور کے ایک خاندان نے ڈیرہ لگایا ہوا تھا ـ ایک بوڑھے میاں بیوی کے ساتھ ان کی جوان بہو تھی ـ بڑے میاں تو خاموش بیٹھے حقہ پیتے رہتے تھے، لیکن ساس اور بہو میں بات بات پر بڑی طویل لڑائی ہوا کرتی تھی لڑائی میں ہار اکثر بہو کی ہوتی اور ہر شکست کے بعد وہ روتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوتی اور ساس سے کہتی تھی ـ
اچھا ، تم نے جتنا ظلم کرنا ہے مجھ پر کر لو ـ میں بھی ابھی جا کر طواف کرتی ہوں اور اللہ میاں کے پاس اپنی فریاد پہنچاتی ہوں ـ
یہ دھمکی سنتے ہی اسکی ساس فوراً پسیج جاتی تھی اور بہو کا دامن پکڑ کر بڑی لجاجت سے کہتی تھی ـ
نہ بیٹی نہ۔ تو تو میری بیٹی ہے ۔ ایسی غلطی نہ کرنا ـ خواہ مخواہ کوئی الٹی سیدھی بات منہ سے نہ نکال بیٹھنا طواف میں جو منہ سے نکل جائے پورا ہوجاتا ہے ـ
اس خاندان سے ہٹ کر ایک جوان جوڑے کا بسیرا تھاـ یہ میاں بیوی بے اولاد تھے اور بچے کی آرزو لے کر حج کرنے آئے تھے ـ اپنا پہلا طواف کر کے یہ واپس آئے تو بیوی نے بڑے وثوق سے کہا کہ اب انکی مراد ضرور پوری ہوجائے گی، کیونکہ طواف کے دوران اس نے اللہ تعالیٰ سے بچے کے علاوہ اور کچھ نہیں مانگا ـ
لڑکا مانگا تھا یا صرف بچہ مانگا تھا؟ـ خاوند نے وکیلوں کی طرح جرح کی ـ
لڑکے کی بات تو میں نے کوئی نہیں کی ـ فقط بچہ مانگنے کی دعا کرتی رہی ـ بیوی نے جواب دیا ـ
رہی نہ اوت کی اوت ـ خاوند نے بگڑ کر کہا ـ
اب اللہ کی مرضی ہے، چاہے تو لڑکا دے چاہے تو لڑکی دے ـ اب وہ تجھ سے پوچھنے تھوڑی آئے گا ـ اس وقت لڑکے کی شرط لگا دیتی تو لڑکا ہی ملتاـ
یہ سن کر بیچاری بیوی بھی کف افسوس ملنے لگی ـ پھر چہک کر بولی۔
کوئی بات نہیں ـ تم کچھ فکر نہ کرو ـ ابھی بہت سے طواف باقی ہیں ـ اگلی بار میں اپنے خداوند کو لڑکے کیلئے راضی کرلوں گی ـ
ان سیدھے سادے مسلمانوں کا عقیدہ اس قدر راسخ تھا کہ خانہ کعبہ کے گرد طواف کرتے ہی وہ کوہ طور کی چوٹی پر پہنچ جاتے تھے اور اپنے معبود حقیقی سے رازو نیاز کر کے نفس مطمئنہ کا انعام پاتے تھے ـ
ان سب کو حق الیقین کی دولت حاصل تھی اور وہ بڑی بے تکلفی سے اپنی اپنی فرمائیش رب کعبہ کے حضور پیش کر کے کھٹا کھٹ قبولیت کی مہر لگوالیتے تھے ـ
شہاب نامہ از قدرت اللہ شہاب
سلامت اور آباد رہیں