ایتھنز: انسان کرہ ارض پر طویل عرصے سے انڈہ، آلو اور دیگر کھانے کی چیزیں تل کر کھا رہا ہے۔ بظاہر سادہ دِکھنے والا یہ عمل در حقیقیت سائنسی اعتبار سے انتہائی پیچیدہ ہوتا ہے۔
زمین پر آلو تلنے کے فعل کو ’بویینسی(buoyancy)‘ کا عمل ممکن بناتا ہے۔ بویینسی کے سبب برتن کی تہہ پر بلبلے بنتے ہیں جو اوپر کی جانب جاتے ہیں اور تلنے کے عمل کو ممکن بناتے ہیں۔ تاہم، مائیکرو گریویٹی میں یہ عام سا کام انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔کشش ثقل کے کھچاؤ کی عدم موجودگی میں بلبلے نہیں ابھرتے جس کی وجہ آلو کرکرے انداز میں نہیں تلتے۔
یونان کی یونیورسٹی آف تھیسالونِیکی کے سائنس دانوں نے ایک مخصوص خودکار فرائر بنایا ہے جو مائیکرو گریویٹی میں آلوؤں کو باآسانی تل سکتا ہے۔
سائنس دانوں نے عدم کششِ ثقل کے ماحول میں گھومنے والی مشین جیسے آلے کا استعمال کرتے ہوئے آلو تلنے کا تجربہ کیا۔
سائنس دانوں نے یورپی اسپیس ایجنسی کے پیرابولک فلائٹ فیسلیٹی میں دو تجربات کیے۔ ان تجربات کو خلائی ادارے کی مالی اعانت سے کیا گیا جس کا مقصد مائیکروگریویٹی میں کھانے پکانے کے طریقہ کار پر تحقیق کرنا تھا۔
تجربات میں ہائی اسپیڈ، ہائی ریزولوشن کیمرا کا استعمال کیا گیا تاکہ تلنے کے عمل بالخصوص بلبلوں کی حرکت کو ریکارڈ کیا جاسکے۔ مائیکرو گریویٹی میں بلبلوں کی حرکت کا سمجھا جانا انتہائی ضروری امر ہے۔ بویینسی کا بلبلوں کو اوپر کی جانب نہ بھیجنا ان کو آلو کے گرد جمع کر دیتا ہے جس کی وجہ سے محققین کا خیال ہے کہ آلو کچے رہ جاتے ہیں۔
کیے جانے والے تجربات کے نتائج میں یہ بات سامنے آئی کہ استعمال کیے گئے آلے میں بلبلے برتن کی تہہ سے آلو ڈالنے کے تھوڑی ہی دیر بعد بالکل ویسے ہی ابھرےجیسے زمین پر ابھرتے ہیں۔
اس کامیابی کے بعد محققین کا اگلا ہدف آلے کی صلاحیتوں کو بہتر کرنا ہے۔تحقیق کے نتائج جرنل فوڈ ریسرچ انٹرنیشنل میں شائع ہوئے۔