چور امام مسجد
کسی ایک شہر میں ایک حافظ قرآن اور عالم شریعت ایک مسجد میں امام مقرر ہوا- لوگ اس عالم کا بہت احترام کرتے تهے اور ہر شخص چاہتا تھا کہ اس عالم کو اپنے گھر دعوت پر بلائے خاص طور پر رمضان المبارک میں، اسی سبب ایک مقتدی نے رمضان المبارک میں ان کو افطار پہ اپنے گھر بلایا-
عالم نے دعوت قبول کی اور افطار کے وقت اس مقتدی کے گھر پہنچے- وہاں ان کا بہت شاندار استقبال کیا گیا اور طرح طرح کے کھانوں سے ان کی تواضع کی گئی۔ افطار کے بعد عالم دین نے میزبان کے حق میں دعا کی اور واپس چلے گئے- مقتدی کی زوجہ نے عالم کے جانے کے بعد, مہمان خانہ کی صفائی ستھرائی کی تو اسے یاد آیا کہ اس نے کچھ رقم مہمان خانہ میں رکھی ہوئی تھی، لیکن بہت تلاش کے باوجود وہ رقم اس عورت کو نہیں ملی- آخر میں اس عورت نے اپنے شوہر سے پوچھا کہ کیا تم نے وہ رقم لی ہے ؟ شوہر نے نفی میں جواب دیا۔
پھر اس عورت نے یہ بات شوہر کو بتادی کہ اس عالم کے علاوہ کوئی دوسرا فرد ہمارے گھر نہیں آیا اور ہمارا دو سال کا چھوٹا سا بچہ چوری کر ہی نہیں کرسکتا- بالآخر دونوں اس نتیجہ پر پہنچے کہ رقم عالم نے ہی چوری کی ہے- یہ سوچتے ہوئے دونوں کے غم و غصہ کی انتہا نہ رہی کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم نے اتنے عزت واحترام کے ساتھ اس عالم کو اپنے گهر بلایا، ان کو عزت بخشی اور انہوں نے یہ غلط کام کیا … اس شخص کو تو قوم کے لئے نمونۂ عمل ہونا چاہیئے تھا نہ کہ چور یا ڈاکو …
! غم و غصہ کے باوجود اس شخص نے حیا کے مارے اس بات کو چهپالیا لیکن اب وہ عالم دین سے دور دور رہنے لگا تھا تاکہ سلام دعا نہ کرنی پڑے- اسی طرح سال گذر گیا اور پھر رمضان المبارک کا مہینہ آگیا، لوگ پھر اسی خاص محبت، خلوص اور جوش و خروش کے ساتھ عالم دین کو اپنے اپنے گھر میں افطار کے لیے بلانے لگے-
اس شخص نے بھی اپنی زوجہ سے مشورہ کیا کہ ہمیں کیا کرنا چاہیئے مولانا صاحب کو گهر بلائیں یا نہیں …..؟ زوجہ نے کہا کہ ہمیں ضرور بلانا چاہیئے کیونکہ ممکن ہے مجبوری کے عالم میں انہوں نے وہ رقم اٹھائی ہو. ہم انہیں معاف کردیتے ہیں تاکہ اللہ بھی ہمارے گناہ معاف کردے- پھر اس شخص نے مولانا صاحب کو اسی عزت واحترام کے ساتھ اپنے گھر افطار پر بلایا اور جب افطار وغیرہ سے فارغ ہوگئے تو میزبان نے مہمان عالم سے کہا۔
قبلہ و محترم ! میرا ایک سوال ہے اور مجھے امید ہے کہ آپ اس کا واضح جواب دینگے- پچھلے سال رمضان المبارک میں میری زوجہ نے مہمان خانہ میں کچھ رقم رکھی تھی اور پهر وہ رقم اٹھانا بھول گئی۔ آپ کے جانے کے بعد ڈھونڈنے کے باوجود وہ رقم ہمیں کہیں نہیں ملی ….کیا وہ رقم آپ نے لی تهی ؟
عالم دین نے تسلی سے بات سنی اور جواب دیا : ہاں میں نے وہ رقم لی تهی- میزبان یہ جواب سن کر حیران پریشان ہوگیا۔ عالم نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: جب میں مہمان خانہ سے جانے لگا تو میں نے دیکها کہ کاونٹر پر پیسے رکھے ہوئے ہیں، پنکھے کی تیز ہوا کی وجہ سے نوٹ ادھر ادھر اڑ رہے تھے اور ان کے بکھرنے کا خدشہ تھا، میں نے وہ نوٹ جمع کئے اور انہیں میز پر رکھنے کے بجائے۔۔۔ عالم ابھی اپنی بات مکمل بھی نہ کر پایا تھا کہ اس نے زور سے اپنا سر ہلایا اور اونچی آواز میں رونا شروع کردیا
اور پھر میزبان کو مخاطب کرکے کہا: میں اس لئے نہیں رو رہا کہ تم نے مجھ پر چوری کا الزام لگایا اگرچہ یہ بہت ہی تکلیف دہ بات ہے بلکہ میں اس لئے گریہ کررہا ہوں کہ پورا ایک سال یعنی 365 دن گذر گئے اور تم میں سے کسی نے بھی اس کمرے میں الماری کے اوپر رکھے ہوۓ قرآن کا ایک صفحہ بهی نہیں پڑها اور اگر تم قرآن کو ایک بار کھول کر دیکھ لیتے تو تمہیں رقم قرآن پاک میں رکھی ہوئی مل جاتی- یہ سن کر میزبان بہت تیزی سے اٹھ کر قرآن مجید اٹهاکر لایا اور جلدی سے کھولا۔
اس کی مکمل رقم قرآن پاک میں رکھی ہوئی نظر آرہی تهی- میزبان پر جیسے سکتا سا طاری ہوگیا، وہ شرمندگی کی تصویر بنا خلاؤں کو گُھور رہا تھا اور شاید یہ سوچ رہا تھا کہ اس کو شرمندگی عالم پر چوری کا الزام لگانے پر ہونی چاہیے یا پورا سال قرآن پاک کو نہ کھولنے پر۔۔ دیکھا جائے تو ہم میں سے بہت سوں کا حال اس میزبان سے جدا نہیں ہے بہرحال اللہ تعالی اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے ہمیں اس بات کو سمجھنے کی توفیق دے اور دین و دنیا میں خیر و برکت عطا فرمائے۔