آج ایک سال بیت گیا۔ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین 9 جون 2022 کو ہم سے بچھڑے تھے۔
جانا تو ایک دن سب ہی کو ہے، یہی اٹل حقیقت بھی ہے لیکن ڈاکٹر صاحب کی موت پر لگے سوالیہ نشان شاید کبھی بھی نا ختم ہو پائیں۔
موت کا طبعی یا غیر طبعی ہونا ایک الگ بات مگر افسوس کہ ہم اس معاشرے کا حصہ ہیں جہاں بہت سوں کو مرنے سے پہلے ہی ‘زندہ لاش’ بنا دیا جاتا ہے۔
وہ معاشرہ جس میں ہم لوگ کسی کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے نمک چھڑکنے میں زیادہ آسودگی محسوس کرتے ہیں۔
وہ معاشرہ جس میں ہم کسی کی تمام تر اچھائیاں بھول کر اس شخص کی کسی ایک برائی کو بار بار دہرا کر اس کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ اس کو تو جینے کا کوئی حق ہی نہیں رہا۔
وہ معاشرہ جس میں ہم کسی کی کمزوری اور بھول چُوک کو بڑھا چڑھا کر، مصالحہ لگا کر اپنے چینلز اور سوشل میڈیا پر صرف اس لئے پیش کرتے ہیں کہ views اور likes زیادہ ملیں گے۔
وہ معاشرہ جس میں ہم کسی کی خطا، لغزش یا گناہ کی بھرپور تشہیر کرتے ہوئے شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ فرشتے تو ہم بھی نہیں۔
اپنے داغدار دامن کو نظر انداز کر کے اس شخص کے دوزخی ہونے کی دلیلیں پیش کرنے لگتے ہیں اور شاید یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ جزا اور سزا کا اختیار صرف رب تعالی کے پاس ہے۔
عامر لیاقت حسین کیا تھا، کیا نہیں، اچھا تھا، برا تھا، دکھاوا کرتا تھا یا نہیں کرتا تھا، میں اس بحث میں نہیں جاؤں گا۔ مجھے تو آج اس کی برسی پر اس کی اچھائیاں یاد کرنی ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ اس کے ترتیب دئیے گئے اسلامی پروگرامز کی وجہ سے مجھے بذات خود کتنی ایسی چیزوں کا علم حاصل ہوا جن کا مجھے کبھی پتہ ہی نہیں تھا۔
وہ شخص ایک سو پچیس سے زائد ایسے خاندانوں کی کفالت کر رہا تھا، جن کے لئے ایک وقت کی روٹی کھانا بھی محال تھا۔
Read also: Marhoom Ki Yaad Mein
وہ شخص جس نے اپنے پروگرامز کے توسل سے تین سو سے زائد بچھڑے ہوئے اغوا شدہ بچوں کو ان کے بے بس اور لاچار والدین سے ملوا دیا۔
جب بھی اللہ اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی بات کرتا تو محبت سے سرشار اور دلیل کے ساتھ کرتا تھا۔
آقاﷺ کے ذکر پر اس کی لبوں پر مسکراہٹ ہوتی اور آنکھیں ادب سے جھک جاتیں۔
وہ جو کوئی بھی تھا، جیسا بھی تھا مگر اپنی حرکتوں یا اپنی باتوں سے کبھی نہ کبھی کسی دکھی اور اداس انسان کے چہرے پر مسکراہٹ کا سبب بن جایا کرتا۔
دوسروں کو معاف کر دیتا اور دنیا کا مشکل ترین کام کہ خود اپنے کسی غلط عمل یا غلط بات پر بِلا جھجک اعلانیہ معافی مانگ بھی لیا کرتا تھا۔
ہمارے لئے اس کے حق میں دعا کرنے کے لیے اتنی ہی دلیل کافی ہے کہ وہ نبیﷺ کا امتی اور
لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰهِ کا دل کی گہرائیوں سے قائل تھا۔
آج ڈاکٹر عامر لیاقت حسین صاحب کی برسی پر دل کی گہرائیوں سے دعا ہے کہ اللہ پاک اپنے پیارے محبوبﷺ کے صدقے ان کے تمام صغیرہ کبیرہ گناہ معاف فرما کر ان کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے اور ہم سب کو ہدایت اور نیک راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
سلامت اور آباد رہیں۔
دعا کا طالب
محمد عظیم حیات
لندن