اتوار کی صبح یعنی چھٹی کا دن، پورے ہفتے کی گہما گہمی کے بعد کچھ لمحوں کا پُر سکون ٹھراؤ، فجر کے تقریباً دو گھنٹے بعد کا وقت۔۔۔
ادھ کھلی کھڑکی، اس کے پار افق پر گہرے بادل، ہلکی ہلکی بوندا باندی، مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو، سر سر بہتی ہلکی ٹھنڈی ہوا میں لہلہاتی ہوئی درختوں کی شاخیں، سنسان سڑکیں، دُور کچھ پرندوں کی رنگ برنگی بولیاں، خاموشی کے اس عالم میں کسی راگ کی طرح ایک خاص ترتیب سے کانوں میں رس گھولتی بارش کی ٹِپ ٹِپ ٹِپ۔۔۔
دھواں اڑاتا تیز پتّی والی چائے کا ایک کپ اور بچپن کی کچھ حسین، کھٹی میٹھی یادیں جو ایک ایک کر کے ذھن کی شاخوں پر پھول بن کر مہکنے لگی ہیں۔ میں نے آنکھیں بند کر لی ہیں۔
بند آنکھوں سے بچپن اور اس سے جڑی یادیں اب بلکل صاف شفاف نظر آ رہی ہیں۔۔۔۔ بلکل آئینے کی طرح۔۔۔
بیٹھے بیٹھے یوں ہی چائے کی چسکی کے ساتھ کوئی یاد لبوں پر بے اختیار مسکراہٹ سی بکھیرتی ہے، کچھ یادیں چھوٹے چھوٹے قہقہوں کی صورت میں ظاہر ہو رہی ہیں۔
پلکوں پر ایک قطرہ سا جھلملانے لگا ہے۔
بارش کا ہے یا آنسو کا۔۔۔ خدا جانے
گلزار کی غزل کا ایک شعر یاد آنے لگا ہے۔۔
Read also: مسز ہیلن دو میٹھے بول۔
یادوں کی بوچھاڑوں سے جب پلکیں بھیگنے لگتی ہیں۔
کتنی سوندھی لگتی ہے پھر ماضی کی رسوائی بھی
چائے ختم ہونے کو ہے، کندھے پر کسی نے اپنا نرم ہاتھ رکھا ہے۔۔۔ میری اہلیہ بچپن کی یادوں کو کچھ اور مہکانے کی غرض سے ایک گرما گرم پراٹھا لائی ہیں اور وہ بھی آلو پالک کا سالن اوپر ڈال کر۔۔۔ اور ہاں ایک اور کپ کڑکتی چائے کا بھی ہے۔۔۔
میں اجازت چاہوں گا اب، کہ کھانے کو انتظار کروانا بھی اچھا نہیں ہوتا۔۔۔
لیکن جاتے جاتے ایک بات کہ پورے ہفتے میں کچھ وقت یوں اپنے ساتھ گزارنا کسی “فن پارے” سے کم نہیں ہوتا۔۔۔ آزما کر دیکھئے گا۔۔۔
سلامت رہیں، خوش اور آباد رہیں۔
دعا کا طالب
محمد عظیم حیات
لندن