’’حج‘‘ ہر صاحبِ استطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک بار فرض ہے۔ ۹ھ میں حج کی فرضیت نازل ہوئی۔ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ ﷺنے ہر مرحلے پر حج کے ایک ایک رکن اور ایک ایک عمل کو تعلیم کے انداز میں سکھایا۔ صحابہ کرامؓ نے حج کے متعلق جو سوالات کیے، آپ ﷺنے ان کے جوابات مرحمت فرمائے، آپ ﷺ نے بڑی تاکید سے فرمایا :’’ مجھ سے مناسک حج اچھے انداز میں سیکھ لو، شاید اگلے سال میں تم میں موجود نہ ہوں۔‘‘ صحابہ کرامؓ نے آپ ﷺکے حج کے ایک ایک عمل کو محفوظ کیا اور اگلی نسلوں تک پہنچایا۔
اسی لیے حج پر جانے والے ہر مرد اور عورت کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسائلِ حج اور اعمال ِ حج کو ضرور سیکھ کر جائے اور اپنے حج کو ہر قسم کے گناہوں، نافرمانیوں اور کوتاہیوں سے آلودہ ہونے سے محفوظ کرے، اس کے لیے ضروری ہے کہ حج کے مسائل اور احکام کے متعلق چھوٹی بڑی کتابیں علمائے کرام نے آسان اور بڑے سہل انداز میں لکھی ہیں، انہیں پڑھے اور انہیں اپنے ساتھ رکھے، تاکہ حج جیسی عبادت جسے بسااوقات زندگی میں ایک بار ہی ادا کرنے کی سعادت ملتی ہے، اس میں کسی قسم کی کوئی کمی کوتاہی نہ رہ جائے۔ اب ہم حجاج کرام سے چند گزارشات کرنا چاہتے ہیں، جن کی طرف حجاج کرام کو توجہ کرنا انتہائی لازمی اور ضروری ہے، تاکہ ان کا حج صحیح معنیٰ میں حج ہو اور جو اجر وثواب اللہ تعالیٰ نے اس حج جیسی عبادت کی ادائیگی پر رکھا ہے، اس کے یہ مستحق ہوں۔
1: حجاج کرام کو چاہیے کہ سفرِ حج کے دوران نماز باجماعت کا خاص طور پر اہتمام فرمائیں، عام طور پر حجاج کرام اس طرف توجہ نہیں دیتے، بلکہ بعض اوقات نماز کے پابند حضرات بھی اس میں سستی کرجاتے ہیں۔
2: خواتین کو چاہیے کہ وہ حج کے پورے سفر میں پردے کا ضرور اہتمام کیا کریں، یہ ٹھیک ہے کہ مستورات کا احرام چہرے کا کھلا رکھنا ہے، لیکن اس کا یہ معنی نہیں کہ وہ پردہ ہی نہ کریں۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کا عمل ہماری مستورات کے لیے بہت ہی عمدہ نمونہ ہے، آپؓ فرماتی ہیں کہ: ہم احرام کی حالت میں عام طور پر اپنا چہرہ کھلا رکھتی تھیں، لیکن جب مرد سامنے آتے تو ہم چہرے کے سامنے کوئی چیز کردیتیں، تاکہ غیر محرم ہمیں دیکھ نہ سکیں، حدیث کا ترجمہ درج ذیل ہے: ’’حضرت عائشہؓ سے مروی ہے، وہ فرماتی ہیں کہ : ہم (حجۃ الوداع میں) حضورﷺکی معیت میں حالت احرام میں تھیں، جب سوار ہمارے پاس سے گزرتے تو ہم اپنے سر سے نیچے اپنے چہرے پر بھی پردہ ڈال لیا کرتیں اور جب وہ ہمارے پاس سے گزرجاتے تو ہم دوبارہ اپنا چہرہ کھول لیا کرتیں۔‘‘ ہماری مسلمان بہنوں کو بھی چاہیے کہ وہ حج کے سفر میں حضرت عائشہؓ کے عمل کو اپنا نمونہ بنائیں، اس لیے علمائے کرام نے کہا ہے کہ آج کے دور میں اس کی بہترین صورت وہ ہیٹ ہے جو عام طور پر احرام کے ساتھ مل جاتا ہے،عورتیں اس کے پہننے کا اہتمام کریں۔
3: عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ حج کے لیے دنیا بھر سے آنے والی خواتین کا لباس بہت ہی ساتر ہوتا ہے ، لیکن ہمارے پاکستان اور ہندوستان کی خواتین خصوصاً دیہات کی خواتین اس کا خیال نہیں کرتیں جو کہ انتہائی افسوس کی بات ہے۔
4: اسی طرح مکۃ المکرمہ میں خواتین نماز کے لیے مردوں کی صفوں میں گھس کر کھڑی ہوجاتی ہیں، جتنا بھی اس سے منع کیا جائے، وہ باز نہیں آتیں، حالانکہ ایسا کرنا شریعت میں منع ہے، اس کی وجہ سے نہ ان کی نماز صحیح ہوتی ہے اور نہ ہی اس مرد کی جو ان کے دائیں بائیں اور ان کے پیچھے ہوتا ہے، عورتوں کو اس سے بچنا انتہائی ضروری ہے۔
5: ایک اہم مسئلہ یہ کہ حرمین میں جمعہ کی پہلی اذان زوال سے بھی پہلے دے دی جاتی ہے، جس کے سننے کے بعد لوگ سنتوں کی ادائیگی کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں، حالانکہ صریح احادیث میں اس وقت نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے، جیسا کہ آپ ﷺکا ارشاد ہے: ’’حضرت عقبہ بن عامر ؓ فرماتے ہیں کہ :سرورِ کونین ﷺتین وقتوں میں نماز پڑھنے اور اپنے مُردوں کو دفن کرنے سے منع فرماتے تھے، اول: آفتاب کے نکلنے کے وقت، یہاں تک کہ بلند ہوجائے، دوسرے: دوپہر کا سایہ قائم ہونے یعنی نصف النہار کے وقت، یہاں تک کہ آفتاب ڈھل جائے اور تیسرے اس وقت جبکہ آفتاب ڈوبنے لگے، یہاں تک کہ غروب ہوجائے۔‘‘(مشکوٰۃ،ص:۹۴،طبع:قدیمی کتب خانہ)
حضرت عمرو بن عبسہ ؓ فرماتے ہیں کہ سرور کونین ﷺمدینہ تشریف لائے تو میں بھی مدینہ آیا اور آپ ﷺکی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر عرض کیا: یارسول اللہﷺ! مجھے نماز کے اوقات بتا دیجیے۔ آپ ﷺنے فرمایا: صبح کی نماز پڑھو اور پھر نماز سے رُک جاؤ، جب تک کہ آفتاب طلوع ہوکر بلند نہ ہوجائے،اس لیے کہ جب آفتاب طلوع ہوتا ہے تو شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان نکلتا ہے اور اس وقت کافر (سورج کو پوجنے والے) اسے سجدہ کرتے ہیں، پھر (اشراق کی) نماز پڑھو ، کیونکہ اس وقت کی نماز مشہودہ ہے (یعنی فرشتے نمازی کی گواہی دیتے ہیں) اور اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں، یہاں تک کہ (جب) سایہ نیزے پر چڑھ جائے اور زمین پر نہ پڑے (یعنی ٹھیک دوپہر ہوجائے) تو نماز سے رُک جاؤ، کیونکہ اس وقت دوزخ جھونکی جاتی ہے، پھر جب سایہ ڈھل جائے تو (ظہر کے فرض اور جو چاہو نفل) نماز پڑھو، کیونکہ یہ وقت فرشتوں کے شہادت دینے اور حاضری کا ہے، یہاں تک کہ تم عصر کی نمازپڑھ لو، پھر نماز سے رُک جاؤ، یہاں تک کہ آفتاب غروب ہوجائے، کیونکہ آفتاب شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان غروب ہوتا ہے اور اس وقت کفار (یعنی آفتاب کو پوجنے والے) اس کی طرف سجدہ کرتے ہیں۔‘‘(مشکوٰۃ، ص:۹۴، قدیمی کتب خانہ)
حضرت عبداللہ صنابحی ؓ راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺنے فرمایا: جب آفتاب طلوع ہوتا ہے تو اس کے ساتھ شیطان کا سینگ ہوتا ہے، پھر جب وہ بلند ہوجاتا ہے تو وہ الگ ہوجاتا ہے، پھر جب دوپہر ہوتی ہے تو شیطان آفتاب کے قریب آجاتا ہے اور جب آفتاب غروب ہونے کے قریب ہوتا ہے تو شیطان اس کے قریب آجاتا ہے اور جب آفتاب غائب (یعنی غروب) ہوجاتا ہے تو شیطان اس سے جدا ہوجاتا ہے اور آنحضرت ﷺنے ان اوقات میں (یعنی آفتاب کے طلوع وغروب کے وقت اور ٹھیک دوپہر کے وقت) نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ ‘‘ (مشکوٰۃ،ص: ۹۵، قدیمی کتب خانہ)
ٹھیک ہے کہ ایک روایت میں جمعہ کا استثناء ہے، لیکن وہ روایت ضعیف ہے، جیسا کہ صاحبِ مشکوٰۃ نے امام ابوداؤد کے حوالے سے نقل کیا ہے: ’’حضرت ابوالخلیل حضرت ابوقتادہؓ سے نقل کرتے ہیں کہ سرورِ کونین ﷺٹھیک دوپہر کے وقت جب تک کہ سورج نہ ڈھل جائے نماز پڑھنے کو مکروہ سمجھتے تھے، علاوہ جمعہ کے دن کے، نیز آپ ﷺکا ارشاد ہے کہ علاوہ جمعہ کے دن کے روزانہ (دوپہرکے وقت) دوزخ جھونکی جاتی ہے ۔(مشکوٰۃ، ص:۹۵، طبع: قدیمی کتب خانہ)
اس روایت کو امام ابوداؤد نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ حضرت ابوقتادہؓ سے ابوالخلیلؒ کی ملاقات ثابت نہیں ہے(لہٰذا اس حدیث کی سند متصل نہیں ہے)۔‘‘ حجاج کرام کو چاہیے کہ جمعہ کی پہلی اذان کے بعد سنتیں اور کوئی نفل نماز وغیرہ نہ پڑھیں، تاکہ اس وعید سے بچ سکیں اور ممنوع اوقات میں نماز پڑھنے والے فعل کے بھی مرتکب نہ ہوں۔ ہمارے مقتدا علماء حضرات کو بھی چاہیے کہ وہ سعودی عرب کے حکام اور علمائے کرام کے سامنے اس مسئلے کو اُٹھائیں اور اُنہیں باور کرائیں کہ اس غیر مشروع فعل کے ارتکاب کا وہ سبب نہ بنیں اور جس طرح پہلے جمعہ کے دن زوال کے بعد پہلی اذان دی جاتی تھی اور اس کے چند منٹ بعد دوسری اذان دی جاتی تھی، اس عمل کو جاری رہنے دیں اور اس نئے طریقے کو رائج کرکے صریح احادیث کی مخالفت کا باعث نہ بنیں۔
6: اسی طرح عام طور پر آج کل حجاج منیٰ میں رہنے کو غیر ضروری سمجھنے لگے ہیں، بلکہ مشاہدہ ہے کہ بعض حج گروپ کے لیڈران خاص طور پر اپنے حجاج کو اس کی ترغیب دینے لگے ہیں کہ آپ عزیزیہ میں اپنی بلڈنگ میں رہیں اور صرف جمرات کو کنکریاں مارنے کے لیے آپ منیٰ میں جائیں، اور کئی لوگ رات گزارنے کے لیے یا تو مکہ اپنی بلڈنگ میں چلے جاتے ہیں یا عزیزیہ میں اپنی رہائش پر چلے جاتے ہیں، حالانکہ آپ ﷺصرف طواف کے لیے تو بیت اللہ تشریف لے گئے، اس کے علاوہ تینوں دن ورات منیٰ ہی میں رہے، جبکہ امام اعظم ابوحنیفہؒ کے نزدیک منیٰ میں رہنا سنت مؤکدہ ہے، باقی ائمہ منیٰ میں رات گزارنے کو واجب قرار دیتے ہیں۔ امیرالمؤمنین حضرت عمر ؓ منیٰ میں نہ رہنے والوں کو تادیب فرماتے تھے۔ حضرت مولانا مفتی محمد ارشاد القاسمی نےاپنی تالیف ’’رسول اللہ ﷺکا طریقۂ حج‘‘ میں منیٰ میں رہنے کے بارے میں روایات کا اِحاطہ کیا ہے، جو کہ درج ذیل ہیں:
۱:۔ حضرت عائشہؓ کی روایت میں ہے کہ ایامِ تشریق میں آپ ﷺمنیٰ میں ہی رہے۔ (ابوداؤد،ص:۲۷۱، )
۲:۔عبدالرحمن بن فروخ ؒکی روایت میں ہے کہ آپ ﷺمنیٰ میں رہے اور وہیں آپ ﷺنے قیام کیا۔ (اعلاء السنن،ص:۱۹۰) ۔
۳:۔حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ وہ کہا کرتے تھے: عقبہ کے پیچھے (مکہ کے حدود میں) کوئی نہ گزارے ایام تشریق کے دنوں میں۔
۴:۔ حضرت عمر فاروق ؓ لوگوں کو زجروتوبیخ فرمایا کرتے تھے اس بات پر کہ منیٰ کا قیام کوئی چھوڑدے۔ (فتح القدیر، ص:۵۰۲)
۵:۔ابن ابی شیبہ میں ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ منع فرمایا کرتے تھے جمرہ عقبہ کے پیچھے (مکہ کے حدود میں) کوئی قیام کرے۔ (فتح القدیر)
۶:۔ حضرت عمر فاروق ؓ ممنوع قرار دیتے تھے کہ وہ منیٰ کے دنوں میں مکہ مکرمہ میں رات گزارے۔ (فتح القدیر، ص:۵۰۲) حضرت مولانا فائدے کے تحت لکھتے ہیں کہ: ’’خیال رہے کہ مزدلفہ سے ۱۰؍ کی صبح کو منیٰ آیا جاتا ہے، اب اس کا قیام منیٰ میں ہی ۱۲؍ تک یا ۱۳؍ تک رہے گا۔ ۴؍ دن ہوئے اور ایک قیام ۸؍ تاریخ کو مکہ مکرمہ سے آنے اور عرفات جانے سے قبل کیا تھا۔ یہ منیٰ کے ۵؍ ایام ہیں، یہ ایام منیٰ میں گزارنا سنت مؤکدہ ہے۔رات کو کسی دوسرے مقام حتیٰ کہ مکہ مکرمہ میں بھی قیام درست نہیں۔ آپ نے منیٰ میں قیام بھی فرمایا اور یہی حکم فرمایا، چنانچہ آپ رات کو نفلی طواف کرنے جاتے تو رُکتے نہیں، منیٰ چلے آتے۔
۷:۔ اسی طرح طوافِ زیارت کے لیے خواہ دس یا گیارہ کو جائے تو طواف سے فارغ ہوکر منیٰ چلا آئے گا اور رات منیٰ میں ہی گزارنی ہوگی، جیسا کہ شرح لباب میں ہے۔
۸:۔ ہدایہ میں ہے: منیٰ کے علاوہ میں رات گزارنی مکروہ ہے۔
۹:۔عنایہ میں ہے کہ منیٰ کا قیام اس لیے مقرر کیا گیا تاکہ رمی جو حج کے مناسک میں ہے آسان ہو۔ (عنایہ علی الفتح،ص:۵۰۱)
۱۰:۔جزء حجۃ الوداع میں ہے کہ جمہور علماء منیٰ میں رات گزارنے کو واجب قرار دیتے ہیں اور امام ابوحنیفہؒ سنت قرار دیتے ہیں۔ (حجۃ الوداع،ص:۱۷۲)
۱۱:۔طحاوی نے لکھا ہے کہ ایام تشریق کے دنوں میں منیٰ میں قیام نہ کرنا مکروہ تحریمی ہے۔( اعلاء السنن،ص:۱۹۰)(بحوالہ رسول اللہﷺ کا طریقۂ حج،ص:۴۷۶-۴۷۷) حجاج کرام سے درخواست ہے کہ حج کے اعمال کو اسی انداز میں ادا فرمائیں، جس طرح آپﷺ، صحابہ کرامؓ، تابعین اور ہمارے اسلاف نے ادا فرمائے ہیں۔ اپنی تن پسندی کی بناء پر اپنی طرف سے ہر ہر عمل میں اپنے خام خیالات اور آراء پر عمل شروع کردیا تو حج کا حلیہ ہی بگڑجائے گا۔ اس لیے خدارا! حج کے اعمال میں جدتیں پیش کرنے سے باز رہیں، اور مخلوقِ خدا کو اسی راستے پر رکھیں، جو حضور اکرم ﷺاور صحابہ کرام ؓنے ان کے لیے طے کیا ہے۔