ابن انشا کا ایک کمال “فن پارہ” ایک بار ضرور پڑھیں۔
ایک بڑے میاں جنہوں نے اپنی زندگی میں بہت کچھ کمایا بنایا تھا، آخر بیمار ہوئے، مرض الموت میں گرفتار ہوئے۔
ان کو اور تو کچھ نہیں، کوئی فکر تھی تو یہ کہ ان کے پانچوں بیٹوں کی آپس میں نہیں بنتی تھی۔ گاڑھی کیا، پتلی بھی نہیں چھنتی تھی۔ لڑتے رہتے تھے۔ کبھی کسی بات پر اتفاق نہ ہوتا تھا حالانکہ اتفاق میں بڑی برکت ہے۔
آخر انہوں نے بیٹوں پر اتحاد و اتفاق کی خوبیاں واضح کرنے کے لئے ایک ترکیب سوچی۔ ان کو اپنے پاس بلایا اور کہا۔ ’’دیکھو اب میں کوئی دم کا مہمان ہوں، سب جاکر ایک ایک لکڑی لاؤ۔‘‘
ایک نے کہا۔ ’’لکڑی؟ آپ لکڑی کا کیا کریں گے؟‘‘ دوسرے نے آہستہ سے کہا۔ ’’بڑے میاں کا دماغ خراب ہورہا ہے۔ لکڑی نہیں شاید
Read also : محنت کے بغیر کچھ نہیں ملتا
ککڑی کہہ رہے ہیں۔ ککڑی کھانے کو جی چاہتا ہوگا۔‘‘ تیسرے نے کہا۔ ’’نہیں کچھ سردی ہے، شاید آگ جلانے کو لکڑیاں منگاتے ہوں گے۔‘‘ چوتھے نے کہا۔ ’’بابو جی! کوئلے لائیں؟‘‘ پانچویں نے کہا۔ ’’نہیں! اپلے لاتا ہوں وہ زیادہ اچھے رہیں گے۔‘‘
باپ نے کراہتے ہوئے کہا۔ ’’ارے نالائقو! میں جو کہتا ہوں وہ کرو۔ کہیں سے لکڑیاں لاؤ، جنگل سے۔‘‘
ایک بیٹے نے کہا۔ ’’یہ بھی اچھی رہی، جنگل یہاں کہاں؟ اور محکمہ جنگلات والے لکڑی کہاں کاٹنے دیتے ہیں۔‘‘
دوسرے نے کہا۔ ’’اپنے آپے میں نہیں ہیں بابو جی۔ بک رہے ہیں جنون میں کیا کیا کچھ۔ِِ
تیسرے نے کہا۔ ’’بھئی لکڑیوں والی بات اپن کی تو سمجھ میں نہیں آئی۔‘‘
چوتھے نے کہا۔ ’’بڑے میاں نے عمر بھر میں ایک ہی تو خواہش کی ہے، اسے پورا کرنے میں کیا حرج ہے؟‘‘ پانچویں نے کہا۔ ’’اچھا میں جاتا ہوں ٹال پر سے لکڑیاں لاتا ہوں۔‘‘
چنانچہ وہ ٹال پر گیا۔ ٹال والے سے کہا۔ ’’خان صاحب ذرا پانچ لکڑیاں تو دینا، اچھی مضبوط ہوں۔‘‘
ٹال والے نے لکڑیاں دیں۔ ہر ایک خاصی موٹی اور مضبوط۔ باپ نے دیکھا اس کا دل بیٹھ گیا۔ یہ بتانا بھی خلافِ مصلحت تھا کہ لکڑیاں کیوں منگائی ہیں اور اس سے کیا اخلاقی نتیجہ نکالنا مقصود ہے۔ آخر بیٹوں سے کہا۔ ’’اب ان لکڑیوں کا گھٹا باندھ دو۔‘‘
اب بیٹوں میں پھر چہ میگوئیاں ہوئیں۔ ’’گھٹا، وہ کیوں؟ اب رسی کہاں سے لائیں۔ بھئی بہت تنگ کیا ہے اس بڈھے نے۔‘‘ آخر ایک نے اپنے پاجامے میں سے ازار بند نکالا اور گھٹا باندھا۔
بڑے میاں نے کہا۔ ’’اب اس گھٹے کو توڑو۔‘‘ بیٹوں نے کہا۔ ’’لو بھئی یہ بھی اچھی رہی۔ کیسے توڑیں؟ کلہاڑا کہاں سے لائیں؟‘‘
باپ نے کہا۔ ’’کلہاڑی سے نہیں، ہاتھوں سے توڑو، گھٹنے سے توڑو۔‘‘
حکم والد مرگ مفاجات۔
پہلے ایک نے کوشش کی، پھر دوسرے نے، پھر تیسرے نے، پھر چوتھے نے، پھر پانچویں نے۔ لکڑیوں کا بال بیکا نہ ہوا۔ سب نے کہا۔ ’’بابو جی! ہم سے نہیں ٹوٹتا یہ لکڑیوں کا گھٹا۔‘‘
باپ نے کہا۔ ’’اچھا اب ان لکڑیوں کو الگ الگ کردو، ان کی رسی کھول دو۔‘‘ ایک نے جل کر کہا۔ ’’رسی کہاں ہے، میرا ازار بند ہے۔
اگر آپ کو کھلوانا تھا تو گھٹا بندھوایا ہی کیوں تھا۔ لاؤ بھئی کوئی پنسل دینا ازار بند ڈال لوں پاجامے میں۔‘‘ باپ نے بزرگانہ شفقت سے اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔ ’’اچھا اب ان لکڑیوں کو توڑو، ایک ایک کرکے توڑو۔‘‘
لکڑیاں چونکہ موٹی موٹی اور مضبوط تھیں۔ بہت کوشش کی، کسی سے نہ ٹوٹیں۔ آخر میں بڑے بھائی کی باری تھی۔ اس نے ایک لکڑی پر گھٹنے کا پورا زور ڈالا اور تڑاخ کی آواز آئی۔
باپ نے نصیحت کرنے کے لئے آنکھیں ایک دم کھول دیں۔ کیا دیکھتا ہے کہ بڑا بیٹا بے ہوش پڑا ہے۔ لکڑی سلامت پڑی ہے۔ آواز بیٹے کے گھٹنے کی ہڈی ٹوٹنے کی تھی۔
ایک لڑکے نے کہا۔ ’’یہ بڈھا بہت جاہل ہے۔‘‘
دوسرے نے کہا۔ ’’اڑیل ضدی۔‘‘
تیسرے نے کہا۔ ’’کھوسٹ، سنکی، عقل سے پیدل، گھامڑ۔‘‘
چوتھے نے کہا۔ ’’سارے بڈھے ایسے ہی ہوتے ہیں، کمبخت مرتا بھی نہیں۔‘‘
بڈھے نے اطمینان کا سانس لیا کہ بیٹوں میں کم از کم ایک بات پر تو اتفاق رائے ہوا۔ اس کے بعد آنکھیں بند کیں اور نہایت سکون سے جان دے دی۔
دعا کا طالب
محمد عظیم حیات
لندن