بچپن میں بزرگوں کی زبانی ایک واقعہ سنا کرتے تھے۔ پہلوانوں کے پہلوان، رستم زماں گامے پہلوان کو کون نہیں جانتا۔
گامے پہلوان نے اپنی زندگی میں ایک بھی اکھاڑا کبھی نا ہارا۔
ایک دن وہ صبح سویرے ایک دہی فروش کی دکان پہ گئے، دہی خریدتے ہوئے شاید کچھ گرما گرمی ہوئی۔ جس پر دکان دار نے طیش میں آتے ہوئے گامے پہلوان کے سر پہ سودا تولنے والے ترازو کا وہ برتن جسے ‘باٹہ’ کہتے ہیں، مار دیا۔
گامے کا سر پھٹ گیا سر سے خون کے فوارے ابلنے لگے۔ مگر گامے نے سر پہ ایک کپڑا باندھا اور خاموشی سے گھر آ گیا۔
اس کے بعد گامے کے گھر میں عیادت کرنے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ لوگ عیادت کرنے کے بہانے آتے اور گامے کو طعنے دیتے، طرح طرح کی باتیں کرتے کہ تم ساری دنیا میں رستم زماں، مانے تانے پہلوان کہلانے والے شخص، اس چھٹانک بھر کے دکاندار سے مار کھا کر بدلہ لینے کی بجائے خاموشی سے گھر بیٹھ گئے۔ تف ہے تم پر۔۔۔۔
گامے پہلوان نے سب لوگوں کو سنا، دھیمے سے ہنستے ہوئے بولا:
” تم جانتے ہو مجھے پہلوان میری اس طاقت نے نہیں بنایا بلکہ مجھے میری قوت برداشت نے پہلوان بنایا ہے ورنہ شاید میں کبھی بھی رستم زماں نا کہلاتا “۔
سوچتا ہوں کہ ہم بھی تکلیفوں اور لوگوں کی باتوں اور رویوں کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کر لیں تو ہم میں سے ہر کوئی گاما پہلوان اور سکندر بادشاہ ہو گا۔
ہماری زندگیوں سے بے سکونی اور نا چاھتے ہوئے دھر آنے والی تلخیاں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نکل جائیں گی۔ ہماری راتیں پر سکون اور دن خوشگوار ہو جائیں گے۔
ایسا کرنا شاید مشکل تو ضرور ہے لیکن ناممکن تو ہرگز نہیں۔۔۔
کامیابیاں برداشت مانگتی ہیں بے شک صبر کرنے والے ہی منزلوں کا تعین کرنے میں کامیاب ہوا کرتے ہیں۔
سلامت اور آباد رہیں۔
دعا کا طالب
محمد عظیم حیات
لندن