ہو رحمت کی نظر مجھ کو عطا میرے آقا
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ نعت پڑھنا، کہنا اور لکھنا بندگی ہی ہے۔ کوئی اور بات ہو یا نہ ہو مگر ایک بات ہمیشہ ہی میرے لیے قابل فخر رہی کہ الحمدللہ میں ثنا خوانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں۔
میں کہاں میری اوقات کہاں کے براہ راست وجہِ کائنات ہستی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ پر کچھ بھی لکھ سکوں، مگر دل میں نعت لکھنے کی تمنا عرصہِ دراز سے مچل رہی تھی کہ اس سے اچھی سعادت اور صدقہِ جاریہ کیا ہوگا، لہذا کانپتے ہاتھوں ڈرتے ڈرتے دعائیہ نعت کے چند اشعار لکھنے کی جسارت کی۔
یہ کوئی عام شاعری کا معاملہ تو تھا نہیں اس لیے اصلاح کے لیے ایسی ہی کسی ہستی کا انتخاب ضروری تھا جو اس میدان میں اپنا ایک مقام رکھتی ہو، چنانچہ ایک نہایت مدبر، علمی اور مذہبی شخصیت جوکہ آستانہ چورہ شریف کے گدی نشین بھی ہیں
اور میرے لئے سب باتوں سے بڑھ کے بات کے سادات خاندان کا وہ مہکتا پھول ہیں جو پوری ذمہ داری سے اپنے نانا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کا پرچار کرتے ہوئے پورے جوبن پر مہک بھی رہے ہیں۔ مجھ بندہ ناچیز پر جناب کی خاص نظر عنایت ہے اور لاہور میں تقریبا تین بار ان کی میزبانی کا شرف بھی حاصل رہا اللہ ان کے درجات مزید بلند فرمائے۔
محترم قِبلہ سیّد اسد اللہ شاہ غالب صاحب کو اصلاح کے لیے اپنی لکھی ہوئی نعت بھیجی اور اب ان کی اجازت کے بعد پوسٹ کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔
عرض مقرر ہے کہ یہ محض ایک اُمی کے تخیل کی چھوٹی سی پرواز ، میرے دل کی آواز ہے ورنہ میری حیثیت یا اوقات ہی نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کچھ بھی کہہ یا لکھ سکوں۔
حرف آخر یہی ہے کہ میں نے محبت اور احترام میں جو بھی لکھا میری نیت کا حال اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بخوبی جانتے ہیں ، بس دعا یہ ہے کہ اس نعت کو درجہِ قبولیت میسر آجائے اور مجھے مزید لکھنے کی عقل بھی۔ امید ہے آپ احباب کو بھی پسند آئے گی۔
اللہ پاک اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ہم سب پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے۔
ہو رحمت کی نظر مجھ کو عطا میرے آقا
دعاگو
محمد عظیم حیات