ہاں
ایک نوجوان کہانی کار کا دلفریب قصّہ، اُسے آئیڈیل بیوی کی تلاش تھی
روشینہ کی پیدائش لالہ موسیٰ میں ہوئی۔ اُس نے اِسی شہر سے اپنی تعلیم کا آغاز کیا تھا اور ابھی پچھلے سال ہی بی اے کا امتحان بڑے شاندار نمبروں سے پاس کیا۔ اب اُس کا ارادہ اُردو ادب میں ایم اے کرنے کا تھا، روشینہ کو اپنے شہر سے بہت محبت تھی۔ شہر میں اُس کے بہت سے رشتے دار تھے اور بہت اچھی اچھی سہیلیاں بھی۔ لہٰذا جب اُسے اچانک پتا چلا کہ اُس کے ابو صفدر حیات جو ایک سرکاری ملازم تھے، کا تبادلہ کراچی کر دیا گیا ہے اور اب چند روز بعد کراچی روانگی ہے تو اُسے کافی دکھ ہوا ۔
روشینہ ایک حقیقت پسند لڑکی تھی۔ اُس کے دل کی محبتیں محدود نہیں بلکہ لامحدود تھیں لہٰذا اُس نے جلد ہی نئی صورتحال کو قبول کر لیا۔ اُسے اپنا شہر چھوڑنے کا رنج تو تھا لیکن اب ملک کے سب سے بڑے شہر میں جانے کی خوشی بھی اُس کے دل میں پیدا ہوئی۔ پھر جب اُس نے اِس سلسلے میں کچھ اور بھی سنجیدگی سے سوچا تو اُسے کراچی جانے کا موقع ملنا اپنے حق میں بہت بہتر ہی لگا۔
وہ بہت مطمئن ہو کر اپنے ابو کے پاس پہنچی اور انتہائی خوش دلی سے مسکراتے ہوئے بولی، ’’ابو سچی بات یہ ہے کہ میں شروع میں یہ بات سُن کر پریشان ہو گئی تھی کہ آپ کا تبادلہ کراچی ہو گیا ہے لیکن اب میری سوچ تبدیل ہو چکی۔ آپ یہ بات بالکل صحیح کہتے ہیں کہ اللہ جو کرتا ہے وہ اچھا ہی کرتا ہے۔ کراچی جانے میں مجھے یہ بڑا فائدہ نظر آ رہا ہے کہ میں وہاںجا کر اُردو ادب میں ایم اے بآسانی کر لوں گی۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ یہ میرا بہت بڑا خواب ہے۔ ہاں البتہ وہاں جانے سے ہمارا بڑا نقصان یہ ہے کہ ہم اپنے رشتے داروں سے بچھڑ جائیں گے اور میں اپنی بہت اچھی اچھی سہیلیوں سے جدا ہو جاؤں گی۔ میرا خیال ہے کراچی میں تو ہمارا ایک بھی رشتے دار موجود نہیں، کیوں! ایسا ہی ہے ناں ابو؟‘‘
’’نہیں بیٹی، ہمارے وہاں بھی کئی رشتے دار موجود ہیں ، بس ذرا دور کے ہیں۔ میرے دو تایا زاد بھائی اور ایک خالہ زاد بہن وہاں رہتی ہے۔ تمہاری امی کی دو خالہ زاد بہنیں بھی وہاں رہتی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ میرا ایک انتہائی پیارا اور سب سے قریبی دوست راشد کمال وہاں مقیم ہے۔ یہ جو تم مجھے اکثر موبائل فون پر بہت دیر تک باتیں کرتا دیکھتی اور اکثر ہنس کر کہتی ہو کہ واہ! ابو آپ نے تو عورتوں کو بھی مات کر دیا، فون پر اتنی لمبی لمبی باتیں۔ تو بیٹی یہ میرا وہی دوست راشد کمال ہے‘‘۔
’’ میرا یہ دوست انتہائی مخلص اور بہت محبت کرنے والا انسان ہے۔ تمہیں اس سے مل کر یقیناً بہت خوشی ہو گی اور ہاں، خاص بات یہ کہ اِس کا ایک بیٹا ارشد کمال افسانہ نگار ہے۔ اس کے افسانے رسائل میں چھپتے رہتے ہیں۔ میں نے بھی اِس کے کافی افسانے پڑھے ہیں۔ کمال کے افسانے ہیں۔‘‘
’’ واہ ابو! حد ہو گئی۔ آپ کے سب سے قریبی دوست کا بیٹا ایک افسانہ نگار ہے اور آپ نے مجھے بتایا تک نہیں۔ اچھا اب آپ کم از کم اتنا کیجیے کہ مجھے چند ایسے میگزین لا دیجیے جن میں ارشد کمال کے افسانے ہوں۔ میں بھی تو دیکھوں کہ یہ صاحب کیسا لکھتے ہیں‘‘۔
’’اچھا ٹھیک ہے۔ میں تمہیں ایسے چند میگزین لا دوں گا‘‘۔ ابھی صفدر حیات صاحب نے یہ جملہ مکمل کیا ہی تھا کہ اُن کی بیگم نادرہ حیات چائے کی ٹرے ہاتھوں میں اُٹھائے کمرے میں داخل ہوئیں اور آتے ہی بولیں:
’’ یہ باپ بیٹی میں کون سے میگزین کی بات ہو رہی ہے ذرا میں بھی تو سنوں۔‘‘
صفدر حیات صاحب نے ایک گہری نظر بیگم پر ڈالی پھر مسکراتے ہوئے بولے’’ اُن میگزین کی جن میں ارشد کمال کے افسانے چھپے ہیں۔ میرا خیال ہے تم نے بھی اُس کے دو تین افسانے پڑھے ہیں۔‘‘
’’دو تین نہیں صرف ایک، وہ بھی آپ کے کہنے پر پڑھا تھا۔ ورنہ مجھے تو افسانوں سے دلچسپی ہے نہ ہی افسانہ نگاروں سے۔ اپنے پاس سے جانے کیا ، کیا اُول فول لکھتے رہتے ہیں۔ تجسّس کا مادہ ان میں بھرا ہوا ہوتا ہے۔ ہر گھڑی اِس تاک میں رہتے ہیں کہ کہیں سے کوئی پلاٹ ہاتھ آ جائے اور یہ افسانہ لکھنے بیٹھیں۔ میری بیٹی کو ان افسانہ نگاروں سے بچا کر ہی رکھیں تو بہتر ہے۔ بھلا بیٹی کے سامنے اِس ارشد کمال کا تذکرہ کرنے کی ایسی کیا ضرورت پیش آ ئی۔‘‘
’’بھئی ہم کراچی جا رہے ہیں تو ظاہر ہے وہاں کے دوست احباب سے ملنے ملانے کا سلسلہ لازماً رہے گا۔ تمہیں معلوم نہیں راشد میرا کتنا گہرا دوست ہے۔ ارشد راشد کا بیٹا ہے تو اُس کا تذکرہ آنا ہی تھا۔ ویسے بھی روشینہ اُردو ادب میں ماسٹرز کرنے کا کہہ رہی ہے لہٰذا افسانہ نگاروں سے بچنا کسی صورت ممکن ہی نہیں۔‘‘
’’ بس بس، رہنے دیں۔ اب ماسٹر واسٹر کچھ نہیں ہو گا ۔ بہت ہوگئی پڑھائی اب اِس کی شادی ہو گی۔ اس نے مزید پـڑھنا ہے تو اپنے گھر جا کر پڑھے۔ ہم نے جو پڑھانا تھا پڑھا لیا۔ اب شوہر کی مرضی ہے کہ آگے پڑھنے کی اجازت دے یا نہ دے۔ میں پاگل نہیں کہ اِس کے ایم اے کرنے کا انتظار کروں۔ لڑکی کی شادی کی یہی عمر ہوتی ہے۔ اِس عمر کے بعد لڑکی کے چہرے کی چمک دمک بڑھتی نہیں ماند ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ جیسے ہی مناسب رشتہ آیا میں فوراً ہی ہاں کر دوں گی۔ پہلے آپ بھی تو اِس سلسلے میں مجھ سے پوری طرح متفق تھے پھر یہ ایم اے کا تذکرہ کہاں سے لے آئے۔‘‘
’’ارے بابا… ٹھیک ہے، لیکن کوئی مناسب رشتہ آئے تب نا۔ جب تک شادی نہیں ہوتی اگر لڑکی پڑھتی رہے تو یہی مناسب ہے۔ یہ جو تم افسانہ نگاروں میں تجسس کی بات کر رہی تھیں تو یہ مادہ تو تم میں بھی بہت ہے۔ اگر نہیں تو آج صبح ہی صبح جب گلی میں شور مچا تو تم جھٹ سے دروازہ کھول کر کیا دیکھ رہی تھیں۔ پھر ابھی دو گھنٹے قبل مجھ سے یہ کیوں کہہ رہی تھیں کہ لگتا ہے قربان بھائی اور اُن کی بیگم میں آج کل بڑی کھٹ پٹ چل رہی ہے۔ بار بار اپنے میکے جا کر بیٹھ جاتی ہیں۔ آپ کی تو قربان بھائی سے بہت دوستی ہے۔ ذرا پتا تو کریں، اصل مسئلہ کیا ہے۔ آج ہی فہمیدہ کے بارے میں کہہ رہی تھیں کہ دیکھ لیجیے گا، یہ فہمیدہ بیاہ کر اپنے سسرال چلی تو گئی ہے لیکن اِس کا وہاں پر گزارہ ہونا بہت مشکل ہے۔ میرا تو خیال ہے یہ زیادہ سے زیادہ ایک ماہ بعد ہی اپنے گھر آ بیٹھے گی اور کل رات…‘‘
’’بس… بس… اب چپ بھی کریں۔ آپ تو ہر بات کو پکڑ لیتے ہیں۔ باتوں میں بھلا آپ سے کون جیت سکتا ہے۔ یہ سب چھوڑیں مجھے آپ یہ بتائیں کہ کراچی جانے میں اب کتنے روز باقی ہیں۔‘‘
اگلے دن صفدر حیات صاحب ایسے سات رسالے لے آئے تھے جن میں ارشد کمال کے افسانے شائع ہوئے تھے۔ انھوں نے پہلے افسانوں کو خود پڑھا پھرروشینہ کے حوالے کر دیے۔ ان افسانوں میں رومانس تو تھا لیکن ایک طریقے اور سلیقے کے ساتھ۔ کسی قسم کی کوئی بیہودگی نہیں تھی۔ ساتوں افسانوں کا پلاٹ بے حد دلچسپ تھا اور افسانوں کی سب سے اچھی بات یہ تھی کہ ان سب میں ہر انسان کے لیے ایک اچھا سبق موجود تھا۔ روشینہ نے ان ساتوں افسانوں کو بڑی توجہ سے پڑھا۔ دو دن تک اُس نے اپنے ابو سے ان افسانوں کے بارے میں کوئی بات نہیں کی لیکن تیسرے دن وہ ایک کاپی اُٹھائے اپنے ابو کے پاس پہنچی اور بے تحاشا ہنستے ہوئے بڑی شوخی سے بولی۔
’’ابو ویسے تو ارشد کمال کے افسانے بہت اچھے ہیں۔ ہر افسانہ پڑھنے والے کو ایک اچھا سبق دیتا ہے۔ ابو ہر افسانے کا کم از کم ایک پیرا گراف ایسا ہے جو حقائق کے بالکل برعکس ہے۔ مجھے تو لگتا ہے، ارشد کمال صاحب اپنے افسانوں کا یہ پیراگراف لکھتے ہوئے بالکل ہی اپنے خوابوں کی دنیا میں کھو جاتے ہیں۔ حقائق کی دنیا سے کچھ دیر کے لیے اپنا رابطہ بالکل ہی معطل کر لیتے ہیں۔‘‘
’’اچھا… یہ بات ہے! ذرا ہمیں بھی تو بتاؤ وہ کون سے پیراگراف ہیں؟‘‘ صفدر حیات صاحب نے بڑے اشتیاق سے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ ’’جی ابو بالکل۔ میں یہ پیراگراف آپ کو پڑھ کر سناتی ہوں۔ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ اِس وقت امی بھی یہاں موجود ہیں۔ امی آپ بھی ذرا توجہ سے سنیے گا۔ یقیناً آپ کو بھی بڑا مزا آئے گا۔ سب سے پہلے ارشد کمال کے افسانے ’’بارش‘‘ کا ایک پیراگراف سنیے:
آج صبح سے ہی صائمہ کے سر میں ہلکا ہلکا درد تھا لیکن اُس نے کوئی خاص توجہ نہیں دی تھی۔ حسبِ معمول گھر کا سارا کام کاج انجام دیتی رہی لیکن دوپہر تک درد نے شدت پکڑ لی۔ اُس نے اپنا دوپٹا سر پر کس کر باندھ لیا اور کمرے میں جا کر اپنے بستر پر دراز ہو گئی۔ اُس کا خیال تھا کہ وہ کچھ دیر آرام کرے گی تو درد خودبخود کم ہو جائے گا لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ درد بجائے کم ہونے کے کچھ اور بھی بڑھ گیا۔ اُس نے سوچا کہ کچھ دیر سو جائے۔ سر درد کایہ بھی ایک علاج ہے۔ کافی دیرتک سونے کی کوشش کرتی رہی لیکن کامیاب نہ ہو سکی۔ اُس نے اپنی کوشش مسلسل جاری رکھی اور حالتِ غنودگی میں چلی ہی گئی۔
اُس کی یہ غنودگی گہری نیند میں تبدیل ہونے ہی والی تھی کہ دیوار پر لگے گھڑیال نے ٹن ٹن کر کے شام کے پانچ بجائے۔ وہ فوراً بستر سے اُچھل کر سیدھی کھڑی ہو گئی۔ سر کے درد پر لعنت بھیجتے ہوئے جلدی سے غسل خانے پہنچی۔ نہا دھو کر پوشاک تبدیل کی پھر قد آدم آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے آپ کو خوب اچھی طرح سجایا سنوارا۔ تیاری مکمل ہوئی تو اُس نے ایک مرتبہ پھر گھڑیال کی طرف دیکھا۔ پانچ بج کر پچیس منٹ ہو رہے تھے۔ اُس کا شوہر نوشاد ٹھیک ساڑھے پانچ بجے گھر میں داخل ہوا کرتا تھا۔ وہ اپنی بیوی کو اِس طرح بنا سنورا دیکھتا تو شاد ہو جایا کرتا۔ آج بھی صائمہ اپنے شوہر کو شاد دیکھنا چاہتی تھی ناشاد نہیں‘‘۔
’’اب دوسرے افسانے کا ایک پیراگراف سنیے:
ثانیہ اپنی سہیلی فاخرہ کے ساتھ پسندیدہ شاپنگ مال میں خریداری میں مصروف تھی۔ اپنی شاپنگ مکمل کرنے کے بعد اُس کا خیال تھا کہ وہ باکمال ریسٹورنٹ میں جا کر کافی کا ایک کپ ضرور پیے گی۔ وہ جب بھی یہاں شاپنگ کے لیے آتی تو کافی ضرور پیتی تھی۔ باکمال ریسٹورنٹ کی کافی حقیقتاً اپنے منفرد ذائقے کی وجہ سے بڑی لاجواب اور باکمال تھی لیکن شاپنگ مکمل کرنے کے بعد جب اُس نے اپنی کلائی گھڑی پر نظر ڈالی تو حیران رہ گئی۔ شام کے سواپانچ بج رہے تھے۔ خریداری کرتے ہوئے اُسے وقت گزرنے کا بالکل احساس نہ ہوا تھا ۔ اپنی اس بھول پر اُسے سخت ندامت ہوئی۔ اُس نے کافی پینے کا خیال دل سے فوراً نکالا اور گھر کی طرف روانہ ہوئی۔ وہ اب جلد از جلد گھر پہنچ جانا چاہتی تھی۔ ٹھیک چھ بجے اُس کا شوہر حامد رضا گھر آ جایا کرتا تھا۔ اُس نے گھر جا کر اپنے آپ کو سجانا سنوارنا بھی تھا۔ شادی کے بعد سے اُس کا ہمیشہ یہ معمول رہا تھا کہ خوب بن سنور کر بڑے والہانہ انداز میں اپنے شوہر کا استقبال کیا کرتی تھی‘‘۔
’’اب تیسرے افسانے کا ایک پیراگراف سنیے:
تبسم کی ماموں زاد بہن ماجدہ کچھ دن اُس کے پاس رہنے لاہور سے آئی ہوئی تھی۔ ایک دن کہنے لگی، تبسم باجی میں نے طارق روڈ کی بڑی تعریف سنی ہے۔ آج ذرا دیکھ کر تو آئیں۔ میں نے دوچار چیزوں کی خریداری بھی کرنی ہے۔ وہیں سے خرید لوں گی۔ تبسم نے ماجدہ کی خواہش کا احترام کیا اور اُسے لے کر طارق رود جا پہنچی۔ کچھ دیر دونوں بہنیں وہاں گھومی پھریں پھر دو چار چیزیں خریدنے کے بعد ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر آئس کریم کھائی پھر ہنسی خوشی واپس گھر چلی آئیں۔ گھر آ کر تبسم نہائی دھوئی۔ سادہ کپڑے اُتار کر اچھا سا لباس زیب تن کیا پھر سنگھار میز کے سامنے کھڑے ہو کر انتہائی انہماک سے اپنے چہرے کو سجانے اور سنوارنے میں مصروف ہو گئی۔ ماجدہ کچھ دیر تک تو تبسم باجی کو بڑے غور سے دیکھتی رہی پھر بڑی حیرت سے بولی۔ تبسم باجی طارق روڈ جاتے ہوئے تو آپ نے اپنے حلیے پر کوئی خاص توجہ نہ دی تھی۔ نہ کپڑے بدلے نہ میک اَپ کیا۔ اب آخر اتنے اہتمام سے کہاں جانے کی تیاری کر رہی ہیں؟ تبسم مسکرائی اور بولی ’’ماجدہ میں یہ تیاری کہیں جانے کے لیے نہیں بلکہ تمہارے دلہا بھائی کے استقبال کے لیے کر رہی ہوں۔ اُن کے دفتر سے آنے کا وقت ہو گیا ہے۔ میں روز اُن کا استقبال اِسی اہتمام سے کیا کرتی ہوں‘‘۔
اب چوتھے افسانے کا ایک پیراگراف سنیے:
’’بس بس‘‘۔ اُس کی امی ہاتھ اُٹھاتے ہوئے بولیں۔ ’’بہت سن لیا، تم آخر ہمیں بتانا کیا چاہتی ہو؟‘‘
’’میں یہ بتانا چاہتی ہوں کہ راشد کمال کے افسانوں کی ہیروئن ہمیشہ یہی انداز فکر رکھتی ہے جبکہ حقیقت میں دور، دور تک ایسی بیویوں کا کوئی نام و نشان نہیں۔ یہاں تک کہ جو بیویاں اپنے شوہروں سے بہت زیادہ محبت بھی کرتی ہیں، وہ بھی اُن کا استقبال اِس قدر والہانہ انداز میں نہیں کرتیں بلکہ اکثر برعکس ہی ہوتا ہے‘‘۔
’’ اب امی آپ خود کو ہی دیکھ لیں۔ اللہ کو حاضر و ناظر جان کر کہیں کہ کبھی آپ نے اپنے شوہر یعنی میرے ابو کا استقبال اِس انداز میں کیا ہے؟ حالانکہ میں جانتی ہوں کہ آپ ابو سے بے حد محبت کرتی ہیں لیکن آپ نے اپنے حلیے کا تو کبھی خیال نہیں رکھا۔ آپ ہی نہیں میں نے تو خاندان بھر کی کسی عورت کو اس والہانہ و دلبرانہ انداز میں استقبال کرتے نہیں دیکھا۔ ایسا تو درکنار وہ تو اپنے شوہروں کی آمد پر مسکرا کر دیکھنا بھی شاید گناہ سمجھتی ہیں۔ زیادہ تر اُن کی آمد پر جلے بھنے انداز میں گھر کا کوئی نہ کوئی مسئلہ لے کر ہی بیٹھ جاتی ہیں۔ کیوں ابو میں ٹھیک کہہ رہی ہوں ناں؟‘‘
’’ہاں میری بیٹی۔ کہہ تو تم بالکل ٹھیک ہی رہی ہو‘‘۔ پھر زندگی سے بھرپور ایک قہقہہ لگا کر بولے ’’چلو اچھا ہوا ارشد کمال کے افسانوں پر تم نے یہ تبصرہ اپنی امی کے سامنے کر دیا۔ اب ہو سکتا ہے تمہارا یہ تنقیدی تبصرہ سننے کے بعد تمہاری امی ہمارا استقبال ذرا بہتر انداز میں کرنا شروع کر دیں۔‘‘
’’ہاں ابو بالکل میں بھی یہی چاہتی ہوں۔‘‘ پھر ہنستے ہوئے بولی! ’’لیکن ابو یہ آپ کے ارشد کمال کا کیا ہوگا؟ انھوں نے تو شاید اپنے تصور میں کسی ایسی ہی بیوی کو اپنے ذہن میں بِٹھا رکھا ہے۔ شادی کے بعد جب اس کے برعکس ہوا تو یہ صاحب بُری طرح مارے جائیں گے۔ بے چارے حقائق کی دنیا سے کٹ کر بالکل ہی اپنےخوابوں کی دنیا میں گم جو رہتے ہیں۔‘‘
کراچی پہنچ کر دو دن تو مکان سنوارنے میں لگ گئے پھر باری باری سب رشتے داروں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ آخر میں راشد کمال کے گھر پہنچے۔انھوں نے اپنے دوست کا استقبال بڑے والہانہ انداز میں کیا لیکن پھر بڑے دکھی انداز میں بولے۔ ’’یار صفدر ،میرا تو خیال تھا تم سب سے پہلے میرے گھر آؤ گے لیکن ہُوا اِس کے اُلٹ۔ تم سب سے آخر میں میرے گھر آئے ہو یعنی اب میں اتنا گیا گزرا ہو گیا۔‘‘ اِس سے پہلے کہ صفدر حیات اپنے دوست کے شکوے کا کوئی جواب دیتے، روشینہ بول پڑی، ’’انکل ابو تو سب سے پہلے آپ کے گھر ہی آنا چاہتے تھے لیکن میرے کہنے پر انھوںنے آپ کے گھر آنے کا پروگرام سب سے آخر میں رکھا۔‘‘
’’اچھا… یہ بات ہے۔ وہ کیوں بھئی؟ تم نے آخر ایسا کیوں چاہا؟‘‘
’’ دراصل میں تمام رشتے داروں کے گھروں کا خوب اچھی طرح مشاہدہ کرنے کے بعد آپ کے گھر آنا چاہتی تھی ۔ اِس میں ایک خاص مصلحت تھی اور وہ تو میں آپ کے افسانہ نگار بیٹے کو ہی بتاؤں گی۔ آپ ان سے بعد میں پوچھ لیجیے گا۔ ‘‘ روشینہ نے آخری الفاظ ارشد کمال کی طرف دیکھتے ہوئے کہے تھے۔
’’اچھا… یہ بات ہے۔‘‘ راشد کمال نے زور دار قہقہہ لگایا پھر بولے۔ ’’اچھا بھئی ارشد کو ہی بتا دینا۔ بعد میں ہم اِن سے پوچھ لیں گے۔ ہاں یاد آیا کہ ایک مرتبہ تمہارے ابو نے ذکر کیا تھا کہ تمہیں بھی اُردو افسانہ نگاری کا شوق ہے۔ تم نے ایک آدھ افسانہ لکھا بھی ہے اور تمہارا ارادہ اردو ادب میں ماسٹرز کرنے کا ہے۔‘‘
’’جی ہے تو سہی دیکھیں کیا ہوتا ہے۔‘‘ پھر وہ ارشد کمال سے براہ راست بولی۔ ’’ میں نے اب تک آپ کے سات افسانے پڑھے ہیں۔ آپ کے پاس تو اپنے سارے افسانوں کا ریکارڈ موجود ہو گا۔ کیا آپ یہ ریکارڈ مجھے دکھانا پسند فرمائیں گے؟‘‘
’’ہاں ہاں… کیوں نہیں آئیے میرے ساتھ۔‘‘ ارشد کمال فوراً اُٹھ کر کھڑا ہوا۔ دونوں مکان کی دوسری منزل پر واقع اُس کے کمرے میں پہنچے جہاں ایک کونے میں رکھے ہوئےریک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ بولا، ’’ یہ اُوپر والے خانے میں جتنے رسالے رکھے ہیں ان سب میں میرے افسانے ہیں۔‘‘
’’بہت خوب… ماشا ءاللہ یہ تو ڈھیر سارے ہیں‘‘۔ پھر اپنے پرس میں سے چند اوراق نکال کر بولی۔ ’’ارشد کمال صاحب، میں نے آپ کے جو سات افسانے پڑھے اُن میں سے یہ سات پیراگراف نوٹ کیے، مجھے یہ بہت دلچسپ لگے۔ ذرا انھیں دیکھیے تو سہی۔ میرا خیال ہے… بلکہ خیال کیا مکمل یقین ہے کہ اس قسم کا ایک آدھ پیراگراف آپ کے ہر افسانے میں موجود ہو گا۔‘‘
ارشد کمال نے اُس کے ہاتھ سے اوراق لے کر جلدی جلدی پڑھے پھر شرمیلی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولا، ’’آپ کا اندازہ بالکل درست ہے۔ میرے تقریباً تمام افسانوں میں اِس قسم کا ایک آدھ پیراگراف یقیناً موجود ہے۔ دراصل اس قسم کا کردار میرا آئیڈیل ہے۔‘‘
’’میرا بھی یہی خیال تھا لیکن یہ صورتِ حال بہت خطرناک ہے۔ آپ خوابوں کی دنیا میں کچھ زیادہ ہی رہتے ہیں۔ حقائق کی دنیا میں رہنا ہی انسان کے لیے بہتر ہے۔ میں آپ کو چیلنج کرتی ہوں کہ کوئی ایک اس قسم کا کردار مجھے بھی دکھا کر تو بتائیں۔ میں نے اپنے شہر میں بھی تمام رشتے داروں اور دوست احباب کو دیکھا۔ یہاں کراچی آ کر بھی تمام رشتے داروں سے ملی۔ مجھے تو آج تک ایسا کوئی کردار نظر نہیں آیا۔ اگر آپ نے ایسا کوئی کردار دیکھا ہے تو مجھے بھی ملوائیں۔ کیا آپ میرا چیلنج قبول کرتے ہیں؟‘‘
’’بات چیلنج قبول کرنے یا قبول نہ کرنے کی نہیں بلکہ کردار کو پسند کرنے اور ناپسند کرنے کی ہے۔ صاف بات یہ ہے کہ مجھے ایسا کردار پسند ہے اور میرا خیال ہے کہ ایک اچھی بیوی کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ کیا میری یہ خواہش غلط ہے؟‘‘
’’ہونا تو چاہیے۔ میں نے یہ کب کہا کہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہی تو افسوس ہے کہ ایسا ہوتا نہیں۔ جب ایسا ہوتا نہیں ہے تو اس طرح لکھنے کا فائدہ؟‘‘
’’ فائدہ ہے، بے حد فائدہ ۔ میں نے آپ کی بات تسلیم کر لی کہ اکثر ایسا ہوتا نہیں ہے، لیکن ایسا ہو سکتا ہے۔ اب شاید ہو جب میری اور آپ کی شادی ہو گی۔ کیوں کہ ابھی آپ اس بات کا اقرار کر چکی ہیں کہ ایسا ہونا چاہیے، تو پھر کیا خیال ہے میں اپنےوالدین کو آپ کے گھر اِس نیک مقصد کے لیے بھیج دوں؟‘‘ ارشد کے چہرے پر شرارتی مسکراہٹ پھیل گئی۔
’’کک… کیا…‘‘ روشینہ یکدم بُری طرح بوکھلا گئی۔ کچھ دیر بڑے غور سے ارشد کمال کی طرف دیکھتی رہی پھر تیز تیز قدم اُٹھاتی ہوئی اُس کمرے میں جا پہنچی جہاں سب لوگ جمع تھے۔
ارشد کمال اُس کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے صرف اتنا بولے:’’ہاں یا ناں؟‘‘ کوئی ایک جواب تودے ہی دیجیے۔ روشینہ نے اُس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔
جب وہ لوگ رخصت ہو کر ٹیکسی میں بیٹھنے لگے تو صفدر حیات نے ارشد کمال سے پوچھا: ’’بیٹا تم نے کوئی نیا افسانہ لکھا؟‘‘
ارشد کمال بولا :’’نہیں انکل! نیا افسانہ لکھا تو نہیں مگر پلاٹ ضرور سوچ لیا ہے لیکن میری سمجھ میں نہیں آ رہا اس افسانے کا عنوان ہاں رکھوں یا ناں۔ ویسے میری شدید ترین خواہش ہے کہ میرے اس نئے افسانے کا عنوان ہاں ہی ہو۔ آپ بس اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے کہ میں اپنے افسانے کا عنوان ہاں رکھنے کے قابل ہو جاؤں۔‘‘
ٹیکسی ایک جھٹکے سے اسٹارٹ ہو کر چلنے لگی تو سب نے الوداعی سلام کرنے کے لیے اپنے اپنے ہاتھ اُٹھا دیے۔ ارشد کمال کی نظر روشینہ کے ہاتھ کی ہتھیلی پر پڑی۔ اُسے اپنے افسانے کا عنوان مل گیا تھا۔
ہتھیلی پر بڑےبڑے حروف میں لکھا تھا،’’ ہاں‘‘۔
قاضی شارق محمود