کبھی جو یاد کا بادل کلام کرتا ہے
کبھی جو یاد کا بادل کلام کرتا ہے
کسی کی آنکھ میں کاجل کلام کرتا ہے
ہوا کی بات تو بنتی نظر نہیں آتی
مِرا چراغ مسلسل کلام کرتا ہے
میں شورِ شہر سے گھبرا کے آ گیا ہوں ادھر
کہ چیختا نہیں جنگل کلام کرتا ہے
حیا کی ہو وہ علامت کہ صورتِ پرچم
ہر ایک رنگ میں آنچل کلام کرتا ہے
تو پھر یہ طے ہے کہ تاریخ ہو رہی ہے رقم
اگر لہو سرِ مقتل کلام کرتا ہے
مجھے فراغ فراہم نہیں کیا اس نے
وہ ایک لمس کہ پل پل کلام کرتا ہے
حصارِ ذات سے پاتا ہے پہلے آزادی
پھر اس کے بعد ہی پاگل کلام کرتا ہے
میں جانتا ہوں اک ایسے بھی شخص کو جو سعید
ادھورے پن میں مکمل کلام کرتا ہے
سعید راجہ