وقت گزاری
اتوار والا دن دنیا کے بیشترممالک میں بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور کیوں نہ ہو چھٹی والا دن جو ٹھہرا۔ اکثر لوگ یا تو سارا دن آرام کر کے پورے ہفتے کی تھکن کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یا اپنی اپنی فیملیز کے ساتھ گھر سے باہر تفریحی مقامات اور رشتے داروں کے ہاں وقت گزار کر چھٹی والے دن سے بھرپور لطف اندوز ہوتے ہیں۔
فجر کی نماز پڑھی تو سوچا آج بھی اتوار ہے مگر کیسا چھٹی کا دن ہے کہ آرام کو دل نہیں چاہ رہا کیوں کہ ہفتہ بھر آرام کے علاوہ اور کچھ کیا ہی نہیں اور نہ ہی ہم باہر جاسکتے ہیں کیونکہ کرونا کی وجہ سے پابندی عائد ہے ۔
دو گھنٹے تک نہ چاہتے ہوئے بھی بستر پر کروٹیں بدلتا رہا مگر نیند کا تصور بھی آنکھوں سے کوسوں دور تھا۔ صبح 11 بجے کا ٹائم تھا چائے کا کپ ہاتھ میں تھامے ڈرائنگ روم کا پچھلا دروازہ جو لان سے متصل ہے کا پردہ ہٹایا تو گھر کے چھوٹے سے لان میں عجیب منظر دیکھا۔ گہرا نیلا آسمان اور پوری آب و تاب سے چمکتا ہوا سورج ۔
سبحان اللہ لندن جیسے شہر میں اپریل کے اوائل میں ایسا موسم کسی نعمت سے کم نہیں، بے اختیار ہاتھ جیب میں پڑے ہوئے موبائل کی طرف بڑھا اور میں نے
محکمہ موسمیات کی سائٹ پر جاکر موسم کا حال دیکھنا شروع کیا۔ واہ پورا دن درجہ حرارت 20 اور 22 ڈگری کے درمیان تھا۔
غیر ارادی طور پر میں نے دروازہ کھولا اور اگلے ہی لمحے سبز گھاس پر لیٹ کر میٹھی دھوپ کے مزے لے رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ بند آنکھوں کے ساتھ کچھ بچپن کی یادوں کو بھی ہرا کیا۔
آج ایک مدت کے بعد بچپن کے وہ سارے پیڑ پودے، رنگین پھول توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے جن کو میں اپنے دوستوں کی طرح عزیز جانتا تھا، جن کا ایک ایک پتّا میں اپنے ہاتھ سے دھوتا اور پھر پہروں بیٹھ کر ان سے باتیں کرتا۔
سب بہت ہی عجیب لگ رہا تھا ایسا کہ جیسے کچھ کھویا ہوا مل گیا ہوں۔ میں نے باغ پر ایک نظر دوڑائی تو جیسے گہری سبز گھاس، نیلے پیلے پھول، ہوا میں اٹھکیلیاں کرتی تتلیاں اور بھنورے مجھے خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ مجھے نہیں یاد کے آخری دفعہ میں ایسے کب ان کے درمیاں بیٹھا تھا۔
ہم انسان کتنے عجیب ہوتے ہیں زندگی کی دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی چاہ میں ، اپنے ہی ہاتھوں تخلیق کردہ غیرضروری ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے چکر میں کولہو کی بیل کی طرح چکر لگاتے رہتے ہیں اور ان چکروں میں کب زندگی کے چکر ختم ہوتے ہیں پتہ بھی نہیں چلتا۔ اس سارے کھیل میں ہم خود کو اتنا مصروف کر لیتے ہیں کہ اپنی ذات تک کو بھول جاتے ہیں۔
کہنے کو وہ سارا وقت جو ہمارا ہوتا ہے اس سارے وقت میں ہم کہیں نہیں ہوتے۔ یہ سب وہ باتیں تھیں جو آج میں گھر میں قید ان پھول پودوں کے درمیان سوچنے پر مجبور تھا۔ قدرت کے ان حسین نظاروں میں ان خوبصورت رنگوں میں یہ قید مجھے کسی بہت بڑی رہائی جیسی لگ رہی تھی، دکھ تھا تو صرف اس بات کا کہ یہ رہائی مجھے میسر آئی تو کرونا کی وجہ سے ورنہ آج بھی میں یا تو شاید سو کر اپنی تھکن دور کر رہا ہوتا یا بناوٹی دنیا کے رنگوں میں رنگا خود سے بے خبر یہ دن گزار دیتا۔
میں نے گھنٹوں لان میں گزارے، قدرت کے رنگوں سے اپنے لمحے رنگین بنائے۔ بہت عرصہ بعد تھوڑا بہت خود سے بھی ملا بہت اچھا لگا اور بہت سی تصویریں اتاری پودوں اور پھولوں کی جو شاید مجھ سے ناراض تھے۔ ایک اور اچھی بات کے دونوں بیٹوں نے بھی میرے ساتھ خوب انجوائے کیا میرے بچپن سے متاثرہوکر پودوں پر خوب تبصرے کیے اور آئندہ بھی ایسا وقت گزارنے کی گزارش کی۔
گھر میں داخل ہوتے وقت دل میں تہیہ کیا کہ انشاءاللہ آئندہ بھی میں خود کے لئے وقت ضرور نکالوں گا اور ان پودوں کے لیے بھی جو ہوا میں جھول جھول کر گویا یہ کہہ رہے تھے۔
عظیم تمہارا بہت شکریہ
اللہ پاک اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے ہم سب پر اپنی رحمت کرے اور ہمیں اس موذی وبا سے نجات دلائے۔
دعا کی گزارش
محمدعظیم حیات