وزن گھٹائیں موٹاپا ایک عذاب ہے
ایک اندازے کے مطابق دنیا کی دس فیصد آبادی موٹاپے کا شکار ہے ۔ موٹاپے کی ابتدا عموماْ بچپن سے ہی ہو جاتی ہے ۔ مائیں اپنے بچوں کو ہر وقت کچھ نہ کچھ کھلانے کی فکر میں لگی رہتی ہیں اور اپنے گول مٹول سے بچے کو صحت مند و تندرست سمجھتی ہیں ۔ ایک معیاری پیمانے کے مطابق ایک سال کے بچے کا وزن اگر دس کلو گرام سے زیادہ ہو تو غذائی احتیاط شروع کر دینی چاہئے ۔
موٹے لوگ کھانے کے بڑے شوقین ہوتے ہیں ۔ جی بھر کر کھاتے ہیں ۔ لہٰذا جب انہیں سمجھانے کے لئے دل میں یہ جذبہ پیدا کرنا ہوگا کہ موٹاپا بڑی نقصان دہ چیز ہے اس سے ہائی بلڈ پریشر ، ہارٹ اٹیک، ذیابطیس ، پتے کی تکالیف ، جوڑوں کا درد لاحق ہو جاتا ہے تو وہ شاید علاج کی کوشش کریں ۔ وزن کم کرنے کے لئے پہلے ان باتوں کا خیال رکھیں ۔ وزن کم کرنے کی مہم میں ایک بات جو بڑی اہم اور ضروری ہے وہ ارادہ ہے ۔
وزن گھٹانے کی کوشش کرتے ہوئے دل میں یہ جذبہ موجزن ہونا چاہئے کہ وزن کم کرنا اور ہر صورت میں اسے کم کر کے رہیں گے ۔ دنیا میں کچھ بھی نہ ممکن نہیں لیکن یقین کے ساتھ کوشش کرنا ضروری ہے ۔ اس یقین میں جادو ہے ۔ یہ بات یاد رکھئے کہ اگر یقین محکم ہے اور اپنی کوششوں پر پورا اعتماد ہے تو کامیابی یقینی ہے ۔ اور یہ بھی یاد رکھیں کامیابی یکدم نہیں آہستہ آہستہ حاصل ہوتی ہے ۔ یقین رکھئے کہ آپ کی کوشش ایک نہ ایک دن رنگ لائے گی ۔
کھانا، سونا اور دیگر خواہشات کو جتنا بڑھایا جائے یہ اتنا ہی بڑھتی ہیں اور قابو پانے پر گھٹتی ہیں ۔ خواہشات پر قابو پانا اس کا علاج ہے ۔ اگر آپ دو چپاتی سے آسودہ ہو سکتے ہیں تو تعداد مین اضافہ نہ کیجئے ۔ کیونکہ تین چپاتی سے جلد ہی یہ تعداد چار اور پھر پانچ ہو جائے گی موٹاپے کی وجہ سے اس سے پیشتر کہ زندگی اختتام کو پہنچے ، جسمانی مشینری کے بیشتر اعضاء متاثر ہوتے ہیں اور ان میں دل سب سے پہلے اور زیادہ متاثر ہوتا ہے ۔
دل اگر تندرست ہو اور آدمی معیاری وزن اور اچھی خوراک کا مالک ہو تو اس وقت دل کی دھڑکنوں کا شمار دن میں چار کروڑ ہوتا ہے جب کہ ہر پانچ سو گرام وزن کی خاطر دل کو ڈیڑھ کلو میٹر لمبی فالتو شریانوں مین خون پہنچانا پڑتا ہے تاکہ دو افتادہ حصوں کو بھی خون کی خوراک مہیا ہو سکے ۔ اگر وزن معیاری وزن سے زیادہ ہو تو دل کو زیادہ کام کرنا پڑیگا ۔
اگر دل کی دھڑکن میں ایک منٹ میں صرف 20 کا جافہ ہو تو دن میں اس کی دھڑکنوں میں 30000 دھڑکنوں کا اضافہ ہوگا اور اس شمار کے مطابق ایک سال میں 107دن کے برابر زیادہ کام کرنا پڑے گا اور دل کے آرام کا وقفہ کم ہو جائے گا جو اس کی صحت کے لئے مضر ہے ۔
اس سے نہ صر ف دل پہ کام کا بوجھ پڑے گا بلکہ زیادہ چکنائی کی وجہ سے دل کی شریانوں میں سختی پیدا ہوگی اور شریانوں کی اندرونی جگہ کھردری اور تنگ ہو جائے گی ۔ شریانوں میں سختی کی وجہ سے دوران خون متاثر ہوتا ہے اور کئی دفع شریانوں میں انجمادخون کا بھی دورہ پر جات ہے جس کی وجہ سے دل کے ایک مخصوص حصہ کو خون نہیں پہنچ پاتا اور وہ حصہ بظاہر مردہ ہوجاتا ہے ۔ یہ سب ماٹاپے کی بدولت ہوتا ہے ۔

دل میں درد کی شکایت جو کہ طبی اصطلاح میں انجائنا کہلاتی ہے ، یہ بھی اس وجہ سے لاحق ہوتی ہے کہ جب دل پر اس کی طاقت سے زیادہ کام کا بوجھ پڑ جائے ۔ ورزش کے بعد اور بہت زیادہ کھانا کھانے کے بعد دل کو زیادہ کام کرنا پڑتا ہے ۔ وزن مین کمی کی وجہ سے دک پر سے کام کا بوجھ ہلکا ہوگا جس سے انجائنا کی شرح میں کمی واقع ہوگی اور بلڈ پریشر بھی نہین بڑھے گا۔
اس کے ساتھ ساتھ فالج کے دورے کے امکانات بھی کم ہو جائیں گے ۔ موٹے افراد کو ہمیشہ سانس پھولنے کی شکایت رہتی ہے ۔ یہاں تک کہ معمولی ورزش کرنے کی وجہ سے بھی ان کا سانس پھول جاتا ہے ۔ اگر کوئی شخص بہت موٹا ہو تو آرام کی حالت میں بھی اسے سانس کی تکلیف رہتی ہے ۔ موٹاپے کا ایک نقصان یہ ہے کہ نظام ہضم در ہم بر ہم ہوجاتا ہے کیونکہ زیادہ کام کرنا پڑتا ہے جس سے اکثر بد ہضمی کی شکایت رہتی ہے ۔
موٹاپے کے باعث ذیابطیس میں مبتلا ہونے کے بہت زیادہ امکانات ہوتے ہیں ۔ اس کے علاوہ موٹے افراد عام طور پر پیروں میں درد کی بھی شکایت کرتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پیر کے نیچے دو محرابیں ہوتی ہیں ایک لمبائی کے رخ اور دوسرا پیر کی چوڑائی کے رخ میں ۔
ان محرابوں کی وجہ سے جسم کا وزن پیروں پر برابر بٹ جاتا ہے لیکن اگر یہ محراب خراب ہو جائے اور ایک حالت جو کہ چپٹے پیر کہلاتی ہے ، ہوجائے تو وزن برابر بٹنے کے بجائے پیر کی جگہ ٹخنوں اور چھوٹی ہڈیوں پر پڑتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ موٹے آدمی پیروں میں درد محسوس کرتے ہیں ۔ پیروں کے درد کے ساتھ ساتھ موٹے آدمیوں کے ٹخنوں پر عام طور پر ورم آجاتا ہے ۔
زیادہ موٹی عورتیں ام طور پر بانجھ رہتی ہیں ۔ اگر وہ اپنا وزن کم کر لیں تو ان میں حمل کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں ۔ ہمارے ملک میں موسم گرما میں موٹاپا و بال جان بن جاتا ہے ۔ موٹے لوگوں میں سر سام کے امکانات دبلے پتلے لوگوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتے ہیں ۔ درمیانی عمر کی ایک موٹی عورت اگر وزن کم کرنا چاہتی ہو تو اس کو صرف 1000 کیلو ریز والی خوراک حاصل کرنی چاہئے ۔
موٹاپے سے نجات پانے اور اس کے اثرات سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ خوراک میں پروٹین کا استعمال زیادہ ہو ۔ غذا میں پروٹین کی موجودگی سے جسم کی حرارت و قوت کے استعمال میں تیزی آجاتی ہے جس کی وجہ سے قوت کا زیادہ استعمال ہوتا ہے ۔ تھوڑی سی کوشش اور دھیان سے آپ اپنی خوراک میں ان چیزوں کا شمار کر سکتے ہیں جو کہ لذیذ بھی ہوں اور ان میں کیلوری کی مقدار بھی کم ہو ۔ مٹھائی ، خشک میوہ، کیک، پلاؤ ، پیسٹری، بریانی ، حلوہ، پڈنگ اور دیگر میٹھی اشیاء سے پرہیز کریں ۔

خوراک پر کنٹرول کے دوران ورزش جاری رکھنی چاہئے اور ورزش میں آہستہ آہستہ روز بروز اضافہ کرنا چاہئے ۔ جس سے نہ صرف وزن میں کمی ہوگی بلکہ جتنا وزن کم کیا جائے گا اسے قائم بھی رکھا جا سکے گا ۔ دیگر امراض کو تو دواؤں کے ذریعے علاج ممکن ہے مگر موتاپے کا علاج دواؤن کے ذریعے اتنا کارگر ثابت نہیں ہوا ۔ موٹاپے کو کم کرنے کے لئے عادات میں نظم و ضبط خصوصاْ خوراک پر کنٹرول کرنا لازمی ہے اور یہ آدمی کو خود کرنا پڑتا ہے ۔
ورزش :
ورزش ہمارے اس مضمون کا نہایت اہم باب ہے ۔ جس طرح زندہ رہنے کے لئے غذا کی ضرورت ہوتی ہے بالکل اسی طرح اچھی صحت کے لئے مناسب ورزش اشد ضروری ہے ۔ اچھی صحت کی راہ پر چلتے ہوئے جب آپ نے غذائی معاملات کو درست کر لیا تو یہ آپ کے سالوں کے کام کو سیٹ کر کے مہینوں میں لے آئے گی ۔ کوئی بھی ورزش شروع کرنے سے پہلے اپنے معالج سے مشورہ ضرور کر لیجئے اور یاد رکھئے پیدل چلنا بہترین ورزش ہے ۔
اس سے نہ صرف یہ کہ کھایا پیا اچھی طرح ہضم ہوجاتا ہے بلکہ وزن قابومین رہتا ہے ۔ اگر آپ ورزش نہیں کرتے اور محض غذائی احتیاط سے وزن گھٹانے کی فکر میں ہیں تو اس کے نتیجے میں آپ بے شک جسم تو گھٹا لیں گے لیکن لٹکا لٹکا گوشت ، بے جان جسم، چہرے پر وقت سے پہلے جھریاں آپ کا مقدر بن جائیں گی ۔ گویا ایسا غبارہ جس میں سے ہوا نکل گئی ہو ۔ بکہ ہلکی پھلکی پندرہ منٹ ، آدھ گھنٹہ روز کی چہل قدمی آپ کے کم ہوتے ہوئے عضلات کو بر قرار رکھے گی ۔
ورزش کون سی مناسب ہے ؟
اس سلسلے میں کوئی ایک ہدایت سب کو نہیں دی جا سکتی البتہ کچھ اصول و قوانین ملؑ م ہیں ۔ ان کو ذہن میں رکھ کر ہی کسی ورزش کا انتخاب کیا جاسکتا ہے ۔ سب سے پہلے تو آپ کو اپنے معالج سے ورزش کی اجازت لینی ہوگی۔ یہ آپ کا معالج ہی جانتا ہے کس قدر ورزش آپ کے لئے موزوں ہوگی ۔ پھر اس ورزش کا انتخاب کریں جس کو ساری عمر کے لئے قائم و جاری رکھاجاسکتا ہے ۔
کیونکہ ماضی میں کی گئی ورزش جو بیس منٹ سے دورانیہ یا ہفتے میں کم از کم چار بار نہ کی جائے عملاْ کچھ فائدہ نہیں رکھتی ہے۔ پھر یہ بھی نہایت ضرورہے کہ آپ ورزش کے بعد خود کو ترو تازہ محسوس کریں ۔ اگر آپ خود کو تھکا تھکا مھسوس کرتے ہیں تو ورش کی نوعیت یا دورانیہ کم کرنا ہوگا ۔ بہر کیف پیدل چلنا ہی بہترین ورزش ہے اور اس کو عمر بھر کے لئے جاری رکھنا بھی کچھ مشکل کام نہیں ۔

باڈی بلڈنگ اور وزن کم کرنے میں فرق رکھئے :
ہم نے اکثر پر جوش نوجوانوں کو ان دنوں کیفیتوں کو گڈ مڈ کرتے دیکھا ہے ۔ کبھی کبھی تو وہ کھانا پینا کم کرکے اپنا وزن گھٹانا شروع کر دیتے ہیں اور کبھی کبھی فلمی ہیرو جیسا جسم بنانے کے لئے ہیتھ کلب میں سخت ورزشیں شروع کر دیتے ہیں جو کہ لائن ہی دوسری ہے اور تن سازی (باڈی بلڈنگ )کے ضمن میں آجاتی ہے ۔ اس مقصد کے لئے تو اضافی پڑوٹین کی ضرورت ہوتی ہے ۔
لہٰذا بہتر ہے کہ پہلے اپنی سمت کا تعین کریں ۔ اگر آپ صرف خود کو فٹ رکھنے تک ہی محدود رکھنا چاہتے ہیں تو سخت ورزش نا موزوں ہے کیونکہ ان ورزشون کے بعد آپ کو بہت بھوک لگے گی اور یوں کھانے سے ہاتھ کھینچنا محال ہو جائے گا ۔
وزن گھٹانے والی دوائیں:
کوئی اخبار یا رسالہ اٹھا کر دیکھ لیجئے آپ کو وزن گھٹانے والی کسی نہ کسی دوا کا اشتہار ضرور نطر آئے گا ۔ ان میں اکثر دوائیں مہلک اثرات بھی رکھتی ہیں اور ان کا طریقہ ورادات بھی صرف بھوک کے احساس کو زائل کر دینا ہوتا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے استعمال سے آپ کا وزن واقعی کچھ کم ہو جائے لیکن ان کے ضمنی اثرات سے بچنا ممکن نہیں ۔ وزن کم کرنے کے لئے چند نسخے اور گھریلو ٹوٹکے درج ذیل ہیں : ۔
* …صبح و شام ایک عدد لیموں ایک گلاس پانی میں نچوڑ کر استعمال کریں ۔
*….ایک گلاس نیم گرم پانی میں ایک چمچ شہد گھول کر استعمال کریں ۔
*…آج کل سلمنگ سینٹر میں وزن کم کرنے کے لئے سینکڑوں روپے کے بدلے میں جو سفید پاؤڈر دیا جاتا ہے وہ در حقیقت پسی ہوئی اسبغول کی بھوسی ہوتی ہے ۔ دو چمچ اسبغول کی بھوسی صبح و شام آپ بھی استعمال کریں ۔
*…پیپل کے دس عدد پھل (پپلی )رات کو آدھا سیر دودھ میں بھگو کر رکھ چھوڑیں ۔ صبح نہار منہ دودھ میں میٹھا ڈال کر اچھی طرح ہلا کر پندرہ دن تک استعمال کریں ۔ بادی اور ثقیل اشیاء سے سخت پر ہیز کریں ۔
توند کی اصلاح کیجئے :
بڑھا ہوا پیٹ ایک مصیبت اور عذاب سے کم نہیں ہوتا ۔ موٹے آدمی کے لئے چلنا پھرنا دو بھر ہوجاتا ہے ۔ دس بیس قدم چلنے پر ہی سان پھول جاتا ہے ۔ توند صحت مندی کا نشان نہیں اسے ایک طرح کی بیماری ہی تصور کرنا چاہئے ۔ بیماری بھی ایسی جو خوبصورتی اور توانائی کی دشمن ہے ۔
جن لوگوں کی توند حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہے اور ہاتھ پاؤں پتلے رہ جاتے ہیں وہ اچھے خاصے جلندھر (استقا) کے مریض لگتے ہیں ۔ عام طور پر پیٹ غیر معمولی طور پر تیس چالیس سال کی عمر کے بعد ہی بڑھا کرتا ہے اس سے قبل صرف ان لوگوں کی توند بڑھتی ہے جو موٹاپے کی راہ پر چل پڑتے ہیں اور بیٹھے رہنے کے خوگر ہوتے ہیں یا جنہیں اپنے کاروبار کے سلسلے میں مجبوراْ بیٹھنا پڑتا ہے ۔
چکنی اور میٹھی چیزوں کی کثرت سے بھی توند نکل آتی ہے ۔ خوب پیٹ بھر کر کام میں مشغول ہو جانا اور ورزش کی طرف سے غفلت برتنا پیٹ بڑھنے کا بہت اہم سبب ہے ۔ بعض لوگ کھانا کھاتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ انہیں کس مقدار میں غذا کھانی چاہئے ۔
اس طرح اناپ شناپ کھانے کا انجام یہ ہوتا کہ معدہ قدرتی طور پر درد ناک ہو کر پھولتا ہے اور چونکہ خوب بھرا ہوا ہوتا ہے اس لئے غذا کو اچھی طرح سمیٹ نہیں سکتا ۔ معدے میں وہ غدود جو ہاضم رطوبت پیدا کرتے ہیں ، زیادہ غذا کی وجہ سے مسدود ہو کر اپنا کام بند کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور کھائی ہوئی غذا معدے پر نا گوار بوجھ بن جاتی ہے ۔ معدہ اس بوجھ کو 22 سے 23 فٹ لمبی نالی میں دھکیل دیتا ہے

۔ اس جد و جہد میں اس کی کافی قوت صرف ہو جاتی ہے اور غذا کو ہضم کرنے کے سلسلے میں اس کی قوت کمزور پڑ جاتی ہے ۔ اگر بسیار خوری کی یہ عادت جاری رہی تو آنتوں میں سختی پیدا ہو جائے گی اور آنتوں میں سے غذا بآسانی گزر نہیں سکے گی ۔ غذا کے زیادہ ٹھہر نے اور جگہ جگہ رکنے سے اس میں سڑاند پیدا ہو جاتی ہے جس کی خرابی پورے پیٹ میں پھیل جاتی ہے اور پیٹ بڑھ جاتا ہے پھر بڑھتے بڑھتے وہ توند کی شکل اختیار کر لیتا ہے ۔ آدمی سست اور کاہل ہو جاتا ہے اور پیٹ کی گونا گوں بیماریاں گھیر لیتی ہیں ۔
توند کی مصیبت کا ازالہ صرف دوا سے نہیں ہو سکتا اس کے لئے بڑے جتن کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ پہلی بات تو یہ ذہن نشین کر لیجئے کہ کھانے کے بعد کم ازکم ایک گھنٹے تک پانی نہیں پینا چاہئے ۔ دوسری تدا بیر کے سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ غذا میں کمی کر دی جائے اور پر خوری کی عادت ترک کر دینی چاہئے ۔ یہ بات ہمیشہ یاد رکھئے کہ غذا کی کمی سے اتنا نقصان نہیں پہنچتا جتنا پر خوری سے پہنچتا ہے ۔
توند کی اصلاح کے لئے لیموں اور شہد کا استعمال مفید ہے ۔ اسبغول کی بھوسی بھی آپ کے لئے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے ۔ اس کے علاوہ اصلی ہینگ تلاش کر کے کہیں سے حاصل کریں اور اسے گھی میں اچھی طرح بھون لیں ۔ جب ہینگ کا رنگ تبدیل ہونے لگے تو گھی چھان کر الگ کر لیں ۔ اب اس گھی کو کسی شیشی میں محفوظ کر لیں اور روزانہ سوتے وقت ناف کی جگہ مالش کریں توند کم کرنے میں یہ نسخہ خاصہ مفید پایا گیا ہے ۔ ۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔