ملکی ترقی میں طلبہ کا کردار
تحریرکردہ: مدثر اسلم
ملکی ترقی کی اصطلاح سے مراد ہے کسی بھی ملک کا افراد کی مجمو عی کوششوں کی بدولت اخلاقی،سماجی،معاشی اورمعاشرتی، المختصر تمام شعبہ ہائے زندگی میں بہتری کی طرف گامزن ہونا۔کسی بھی ملک میں طلبہ کی مثال ایک ریڑھ کی ہڈی کی سی ہے۔ملک و قوم کی ترقی میں طلبہ مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔وہ قوم کے رو شن مستقبل کے ضامن ہیں۔
اگر کسی قوم کے طلبہ تعلیم یافتہ،ذمہ داراور فرض شناس ہیں تو یہ اس بات کا منہ بولتاثبوت ہے کہ اس قوم کا مستقبل محفوظ ہے۔اور اگر اس کے بر عکس کسی ملک و قوم کے طلبہ غیر ذمہ دار ہیں تو اس کا مستقبل تاریک ہے۔اگر کسی بھی ملک میں طلبہ کی تعداد کم ہوگی تو شرح خوا ندگی کم ہوگی اور صاحب شعور لوگوں کی کمی ہوگی جس کے نتیجے میں مسائل کا پیدا ہونا ایک لازمی امر ہے۔تو ایک نا قابل فرا موش حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی ملک و قوم کی ترقی کے لیے طلبہ کا ہونا ضروری ہے۔
اس قوم کو شمشیر کی حا جت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد
افراد مل کر ایک قوم بناتے ہیں اور قومیں مل کر ملک بنا تی ہیں۔تواس پیرائے میں افراد اور ملک کا آپس میں باہمی تعلق ہے۔اگر افراد ترقی کریں گے تو ملک ترقی کرے گا اور اگر ملک ترقی کرے گا تو اس کے اثرات افراد تک پہنچیں گے۔ملک و قوم کی حفا ظت و آبیاری اور اس کو مستحکم و مضبوط بنانے کی ذمہ داری با لخصوص کسی ایک فرد پر عا ئد نہیں ہوتی بلکہ اس کے تمام افراد اس کی حفاظت کے ذمہ دار اور اسکی عظمتو حرمت کے رکھوالے اور امیں ہیں جن میں طلبہ سر فہرست ہیں۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہرفرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
انسان عمر کے مختلف مدارج سے گزرتا ہے یعنی بچپن، جوانی اور بڑھاپا۔بچپن میں انسان صرف خواب دیکھتا ہے لیکن ان کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی طاقت اور ہمت نہیں رکھتا۔اور با لکل اسی طرح بڑھاپے میں بھی اس میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے خوابوں کی تکمیل کا سامان کر سکے۔اسکی ہمت، جذبے اور ارادے بھی ڈھلتی عمر کے ساتھ بوڑھے ہو جاتے ہیں۔تو
صرف جوانی ہی عمر کا وہ بہترین حصہ ہوتا ہے جب وہ خواب بھی دیکھتا ہے اور انہیں تکمیل کے سانچے میں ڈھالنے کی ہمت اور طاقت بھی رکھتا ہے۔تو اس ضمن میں طلبہ کا کردار غیر معمولی اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے۔کیوں کہ ان کے پاس اپنے خوابوں کی تکمیل اور ملک و قو م کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تمام مطلوبہ ذرائع اور وسا ئل میسر ہیں۔اور اسی پیرائے میں شا عر طلبہ کو اپنی ذمہ داری کا احساس دلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
تیرا شباب امانت ہے ساری دنیا کا
توخارزارجہاں میں گلاب پیدا کر
ماضی کے دریچوں میں جھانکنے سے پتہ چلتا ہے کہ تاریخ انسانی میں جب بھی کوئی انقلاب رونما ہوا تواس میں طلبہ صف اول میں شامل رہے۔تحریک پاکستان میں طلبہ کا کردار نا قابل فراموش ہے۔مسلم سٹوڈنٹ فاؤ نڈیشن میں طلبہ کا کردار قابل ذکر ہے۔
اس کے علا وہ طلبہ مسلم لیگ کے جلسوں کے منتظم رہے اور لیگ کے لیے چندا بھی اکٹھا کیا۔تحریک پاکستان کے دوران پیغام قائد کو قریہ قریہ گلی گلی پہنچایا اور قائد اعظم کا ہراول دستہ بنے رہے۔اسی طرح جب صوبہ سرحد کی پاکستان میں شمو لیت اختیارکرنے کا وقت آیا توطلبہ پیش پیش رہے اور ہجرت کے بعد مہا جرین کے مسائل کے حل کو یقینی بنایا اور انہیں بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی کی۔
اسی طرح ۵۶۹۱ اور ۱۷۹۱ ء کی پاک بھارت جنگوں میں بھی طلبہ نے مثالی کردار ادا کیا۔زخمیوں کو طبی امداد دی اور ضرورت مندوں کو خون کے عطیات بھی دیے۔ماضی کے یہ تمام واقعات سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہمارے طلبہ ہماری ترقی،خوشحالی اور روشن مستقبل کے ضامن ہیں۔
ہاں! یہ وہی طلبہ ہیں جن کے لیے قلندرلاہوری علامہ اقبال نے شاہین کا لفظ استعمال کیا۔اس ضمن میں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ شاہین کون ہے۔شاہین ایک ایسا پرندہ ہے جو بلند ترین پرواز کرتا ہے اور اپنا گھونسلہ نہیں بناتا بلکہ بہتر سے بہتر کی تلاش میں رہتا ہے۔اقبال کی دور اندیشی اور نور بصیرت نے طلبہ میں وہ تمام خصوصیات دیکھ لی تھی جو ایک شا ہین میں ہوتی ہیں۔اسی لیے ان کے لیے شاہین کا لفظ استعمال کیا۔
بقول اقبال
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں
انہوں نے نوجوانوں کو اپنی شاعری کے ذریعے دعوت فکر دی۔انہیں اپنی ذات کو پہچاننے کا درس حقیقی دیا۔انہیں اپنی قدر و قیمت اور منزل کا تعین کرنے کا پیغام دیا۔اور انہیں بتایاکہ ان کی منزل تو ستاروں سے بھی آگے ہے۔تووہ محض اس پر قنا عت نہ کریں۔
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
قنا عت نہ کر عالم رنگ و بو پر
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں
مندرجہ بالا شعر سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال کی چشم بینا میں نوجوانوں کا مقام کتنا ارفع تھا۔۔ضرورت اس امر کی ہے کہ طلبہ جدیدسائنسی اور فنی تعلیم کے حصول کے لیے کوشاں رہیں۔ تاکہ ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکیں۔قائد اعظم نے طلبہ کو سیاست سے دور رہنے کا مشورہ دیا ہے۔اس لیے انہیں چا ہیے کہ قائد کے فرمان کی پیروی کرتے ہوئے اپنی تمام تر توجہ تعلیم کی طرف مبذول کریں۔کیوں کہ
ایک تعلیم یافتہ نوجوان ہی ملک و قو م کی ترقی کا ضامن ہو سکتا ہے۔ایک تعلیم یافتہ اور با شعور انسان ہی ملکی باگ ڈور سنبھا ل سکتا ہے اور اس کی ڈوبتی ناؤ کو پار لگا سکتا ہے۔طلبہ کو چاہیے کہ وہ نہ صرف اچھے پاکستانی بنیں بلکہ ایک اچھے مسلمان ہونے کا بھی ثبوت دیں اور احکام اسلام کی پیروی کرتے ہوئے اس بات کا ثبوت دیں کہ:
ہم ہیں وطن عزیز کے ذروں کی حرمت کے رکھوالے
ہم ہیں حرف لاالہ کے ترجمان بے خطر
خلاصہ کلام کے طور پر یہ کہنا چاہوں گاکہ جس طرح طلبہ نے تحریک پاکستان میں اپنا اہم کردار ادا کیا اسی طرح انہیں چاہیے کہ استحکام پاکستان میں بھی اپنا کردار ادا کریں۔قوم ان کی طرف پرا میدنگاہوں سے دیکھ رہی ہے۔انہیں چاہیے کہ قومی تہذیب و ثقافت کے پاسباں بنیں اور جس مقصد کے لیے پاکستان بنا تھا اس نظریہ کی تفہیم و اشاعت کریں۔اقبال کے طرزفکر کو اپناتے ہوئے اپنے سینے میں علم و حکمت کی شمع کوروشن کریں اور ان امیدوں کو حقیقت کی شکل دیں جو اقبال نے ان سے وابستہ کی تھی۔انہیں چاہیے کہ وہ اپنی پنہاں صلا حیتوں کو بروئے کار لاتے ہو ئے وطن عزیز کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔
ٓاٹھ کہ خورشید کا سامان سفر تازہ کریں
نفس سوختہ شام و سحر تازہ کریں
طلبہ کی مؤثر شمولیت کے بغیر ملکی ترقی نا ممکن ہے۔اس لیے ضرور ت اس امر کی ہے کہ طلبہ اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہوں اور انہیں خوش دلی سے سر انجام دیں اوریہ عزم مصمم کریں کہ:
خون دل دے کر نکھاریں گے رخ برگ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھا ئی ہے
طلبہ کو چاہیے کہ وہ فکر اقبال کے قیمتی ورثہ کو عملی جامہ پہناتے ہوئے اپنے مقام، فرائض اورمنازل کا احاطہ کریں اور اپنی لامحدود منزل کی مسافتوں کو طے کرنے کی عملی کوشش کریں۔یقینی طور پر کامیابی ہمارا مقدر ٹھہرے گی۔اور میں اقبال کے نوجوانوں کو دعوت فکر دیتے ہوئے کہنا چا ہوں گا کہ آئیے اپنا محاسبہ کریں۔یہ محاسبہ ہمیں آگے بڑھنے کی فکر عطا کرے گا اور ہم اپنے ماضی و حال کو تاریخ کے پلڑے میں میں رکھ کر تول سکیں گے۔
میں پر امید ہوں کہ طلبہ ضرور اپنے مؤثر کردار سے نہ صرف ملکی ترقی کے ضامن بنیں گے بلکہ دوسرے ممالک کے سامنے اس ملک کی پر امن اور مثبت تصویر کشی کر کے اس ملک کا سر فخر سے بلند کریں گے اور ہماری آنے والی نسلوں کے لیے قابل تقلید نمونہ چھوڑ کے جائیں گے۔
۔رات کی تاریکی ختم ہو چکی ہے اور ایک نئی صبح ہونے کو ہے جس کی تابناک کرنوں سے جہالت کے اندھیرے مٹ جائیں گے اور ہر چیز اپنی حقیقی حسن کو پا لے گی اور اس وطن عزیزکا پر چم آزاد فضا میں پوری آب و تاب سے چمکے گا جو تمام اقوام عالم پر عیاں ہوگا۔ مؤرخ منتظر ہے کہ وہ اس ملک کی ترقی کی داستاں کو سنہری الفاظ میں لکھے۔۔۔!
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
ختم شد۔۔۔۔
میں اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ اس مضمون میں لکھا گیا مواد بندہ کے ذاتی افکارو خیالات پر مبنی ہے۔کسی بھی قسم کے مواد یا تحریر سے مما ثلت محض اتفاقیہ ہو گی۔۔۔
والسلام
مدثراسلم