لاہور کے 12 دروازوں کی داستاں
یکی گیٹ: یکی گیٹ کا نام پہلے ذکی گیٹ ہوا کرتا تھا۔اور یہ نام ایک بزرگ کے نام پر رکھا گیا تھا ۔ اس کے گرد بہت سی حویلیاں اور مندر موجود ہیں ۔ اسکی تاریخ بہت دلچسپ اور عجیب سی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ تاتاریوں کے ساتھ جنگ کے دوران بزرگ کا سر تن سے جدا ہو گیا مگر وہ انکا جسم مکمل حالت جنگ میں رہا یہاں تک کہ سر ا ور دھڑ علیحدہ علیحدہ گرے اور جہاں گرے وہیں انکی قبر بنا دی گئی ۔
اکبری گیٹ: اکبری دروازہ ایک مغل بادشاہ کے نام پر بنایا گیا جن کا نام جلال الدین اکبر تھا ۔ یہ شہر کے مشرق میں واقع ہے۔ اس نے ٹاون کی تعمیر نو کا کارنامہ سر انجام دیا تھا ۔ شہنشاہ جلال الدین اکبر نے ٹاون کے قریب ایک بہت بڑی مارکیٹ بھی بنائی جس کا نام اکبری منڈی ہے اور یہ اب بھی ویسی ہی مقبول اور اعلی معیار کی ہے جیسے پہلے تھی ۔یہ لاہور کی سب سے بڑی ہول سیل کی مارکیٹ ہے ۔
ٹیکسالی گیٹ: ٹیکسالی گیٹ کا نام رائل منٹ کے نام پہ رکھا گیا ۔ ٹیکسالی سکے بنانے والے کارخانے کو کہا جاتا ہے ۔ بد قسمتی سے یہ گیٹ اب یہاں موجود نہیں ہے لیکن یہاں کھانے بہت رنگ رنگ کے موجود ہیں جو کھانے لوگ دور دور سے آتے ہیں ۔ سکھوں کی مشہور مقدس عمارتیں پانی والا تالاب اور لال کھوہ یہیں واقع ہیں۔
شاہ عالمی گیٹ: شاہ عالمی گیٹ لاہور کی ایک مشہور جگہ ہے ۔ اس کا نام شہنشاہ محمد معظم عالم بہادر شاہ کے نام پہ رکھا گیا ۔ آزادی کی تحریک کے دوران اس گیٹ کو جلا دیا گیا اور اب بس اسکا نام باقی ہے ۔ اس گیٹ کے قریب لاہور کی بڑی اور بہترین شاہ عالم مارکیٹ موجود ہے کیونکہ اس گیٹ کو دوبارہ تعمیر نہی کیا جا سکا ۔
بھائی گیٹ: بھائی گیٹ اصل میں ایک بہت پرانے قبیلے بھٹی راجپوت کے نام پہ رکھا گیا ۔ اس کا داخلی دروازہ شہر کی مغربی دیوار کے ساتھ ہے ۔بھائی گیٹ کی مشہور چیز اشیائے خوردنی کی مارکیٹ ہے اسکے علاوہ اسکی وجہ شہرت داتا علی ہجویری صاحب کا دربار بھی ہے ۔ یہاں علامہ اقبال کا بھی ایک چھوٹا سا کتب خانہ تھا جہاں وہ مطالعہ اور کتب بینی کے شغل کے لئیے آتے تھے ۔
کشمیری گیٹ: کشمیری گیٹ کے نام کی بڑی وجہ اسکا رخ کشمیر کی طرف ہونا ہے ۔ کشمیری گیٹ کے اندر کشمیری بازار اور ایک خوبصورت گرلز کالج واقع ہے ۔ کالج کی بلڈنگ مغل فن تعمیر کی عکاسی کرتی ہے ۔اسی سے سڑک نکل کر ایشیا کی سب سے بڑی کپڑے کی مارکیٹ اعظم مارکیٹ کو جاتی ہے جو اسکی مشہوری کی خاص وجہ ہے ۔
دہلی گیٹ: دہلی گیٹ بہت اہم دروازہ ہے جو شہنشاہ اکبر نے بنوایاتھا ۔ یہ گیٹ دہلی کی طرف کھلتا ہے اس لئیے اسکا نام دہلی گیٹ ہے ۔ یہ کسی زمانے میں لاہور دہلی ٹرانسپورٹ کا واحد راستہ تھا ۔ آزادی کی تحریک کے دوران ہونے والے فسادات میں اسکو بہت نقصان پہنچا مگر اس کی تعمیر نو نے اسکو اب تک زندہ رکھا ہوا ہے ۔
مستی گیٹ: مستی گیٹ کا نام اسکے شایان شان نہیں بلکہ مختلف روایتوں کے مطابق وہاں آنے والے ایک گارڈ مستی بلوچ کے نام پہ رکھا گیا ۔ اس میں بھی مورخین کو اختلاف ہے ۔ یہ شاہی قلعہ کی پشت پر واقع ہے جو کہ شہر کے مشرق میں ہے ۔ یہاں کی خالص دودھ کی بنی اشیا لاہور بھر میں مشہور ہیں ۔
لوہاری گیٹ: لاہوری گیٹ لاہور کا سب سے قدیم گیٹ ہے۔ محققین کے مطابق لوہاری لفظ لوہا سے نکلا ہے ۔ چونکہ اس علاقے میں بہت سے لوہار تھے اور انھوں نے اس دروازے پہ بہت سی دوکانیں بنا رکھی تھیں اسلئے اسکو یہ نام دیا گیا ۔ اب لوہاری گیٹ کے کلچر میں کھانا ہی کھانا ہے ۔ لوہاری گیٹ کے سامنے لاہور کا مشہور زمانہ انارکلی بازار واقع ہے ۔
موچی گیٹ: موچی گیٹ کولاہور کا دل کہا جاتا ہے ۔یہ مغل فن تعمیر کا شکار ہے اور شہر کے جنوب میں واقع ہے ۔ جیسا کہ اسکے نام سے ظاہر ،ہے ، یہاں جوتوں کی مرمت اور مینوفیکچر کے بہت کارخانے موجود ہیں ۔ اسکے بالکل دائیں ہاتھ پہ موچی باغ ہے جو پرانے وقت سے اب تک سیاسی جلسوں کی آماجگاہ ہے اور بہت مشہور ہے ۔موچی دروازہ کے اندر موجود مبارک حویلی،نثار حویلی اور لال حویلی مغل فن تعمیر کی خوبصورتی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
روشنائی گیٹ: جیسا کہ اسکے نام سے ہی ظاہر ہے یہ روشنیوں کا دروازہ مشہور تھا ۔ یہ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد کے درمیان واقع ہے ۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے یہاں 1813 میں حضوری باغ بنایا تا کہ وہ شاہ سے فتح کئے گئے کوہ نور کی فتح کا جشن منا سکے۔ یہ اب تک اپنی اصل حالت میں موجود ہے اور دیکھنے والوں کو اپنی داستان اپنی خوبصورتی سے سناتا ہے۔
شیرانوالا گیٹ: شیرانوالا گیٹ کے نام کی وجہ یہ تھی کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے دو کڑی شیر دروازے کی داخلی حد پہ کھڑے کئے ہوتے تھے۔ اس نے یہ شیر اپنے شوق کی خاطر پال رکھے تھے۔ اس سے پہلے اسکا نام خضری گیٹ تھا۔ اب یہ علاقہ آبادی سے بھر چکا ہے مگر اپنی مخصوص چیزوں کی وجہ سے مشہور ہے جن میں اشیائے خوردنی شامل ہیں ۔