فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ
آج شادی کے بعد پہلی صبح تھی انکی ایک ساتھ ۔۔۔ وہ پچھلے پندرہ منٹ سے اسے مسلسل اٹھا رہا تھا پر وہ پوری طرح نیند میں غرق تکیے میں منہ دئیے سو رہی تھی ۔۔۔ہیر اٹھ جاؤ نماز کا وقت گزر جائے گا ۔۔
۔ وہ اسکے چہرے سے بال ہٹاتے ہوئے بولا تھا اور وہ کسمسائی تھی سونے دیں ۔۔۔وہ مسکرا اٹھا تھا اسکی اس ادا پہ ۔۔۔جھک کر اسکی پیشانی پہ اپنی محبت کی پہلی نشانی ثبت کی تھی اچھا میں جارہا ہوں مسجد ۔۔ وہ اٹھا تو جان نکلی تھی اسکی ۔۔کب تک آئیں گے ۔۔ نیند فورا بھاگی تھی بیس منٹ تک آتا ہوں ۔ ۔۔اسے نظر بھر کر دیکھا تھا جو الجھے بال لئے چہرے پے اضطراب لئے بیٹھی بلکل جھلی لگ رہی تھی ۔۔
۔وہ جاچکا ۔۔۔اتنی کوفت تو اسے کبھی نہیں ہوئی تھی اٹھنے میں وہ نماز وقت پہ پڑھنے کی عادی تھی اور آج آنکھیں ہی نہیں کھل رہی تھی ۔۔۔ کیا سوچ رہے ہوں گے اذلان میرے بارے میں ۔۔۔ شرمندگی ہی شرمندگی تھی یہی سب سوچتے وہ وضو کر چکی تھی ۔۔۔وہ جائے نماز پر کهڑی ہونے لگی تو اس کو اذلان کا خیال آنے لگا.
وہ خیال جهٹک کرپھر سے نیت باندھنے والی تھی اسے اپنے پیچھے اذلان کی آواز سنائی دی ۔۔ہیر ۔۔۔وہ حیران سی فورا پیچھے مڑی تو ازلان دروازے میں کھڑا تھا ۔۔”آپ مسجد نماز پڑھنے نہیں گئے؟””نہیں میں گیا ہی تھا واپس آگیا .”وہ اسکی طرف قدم بڑھاتے بولا تھا جسکا چہرہ تر تھا اب بھی وضو کے پانی سے”مگر کیوں؟ وہ منہ کھولے کھڑی تھی ۔۔
۔بتاتا ہوں نا ابھی ۔۔ اس نے آگے بڑھ کر اسکا کھلا منہ بند کیا ۔۔۔تم میری امامت میں نماز پڑھو گی آج ۔۔۔ پتا نہیں یہ حکم تھا درخواست تھی یا حق تھا ۔۔۔وہ کھلکھلا اٹھی تھی ۔۔۔وہ جائے نماز بچھا چکا تھا ۔۔۔ اور اسکی متاعِ حیات اسکے پہلو میں کھڑی تھی ۔۔۔ عجیب شخص تھا نا وہ جسکی محبت میں اب تک سلگتی رہی تھی اسی کے پہلو میں رب کے حضور کھڑی تھی ۔
وہ دونوں اب سر جھکائے سنتیں ادا کر رہے تھے جو سارے جہان سے بہتر ہیں ۔۔۔سلام پھیرا گیا تو وہ چپ تھی بلکل جیسے الفاظ گنگ تھے ۔۔۔وقت کے رکنے کی التجا اسکی نم آنکھوں نے بےساختہ کی تھی ۔۔۔”اب تم میری امامت میں نماز پڑھو گی.”وہ مسکرایا تھا ہیر سر جھکائے کھڑی تھی جیسے ابھی رو پڑے گی ۔۔۔کمرے میں سورت واضحی اور سورت الم نشرح کی تلاوت کی مدھم آواز دل پہ اثر کر رہی تھی ۔۔۔اور وہ اپنے من چاہے شوہر کی امامت میں فرض ادا کر رہی تھی پهر جب فرض بھی ادا کر لیے تو سلام پھیرا گیا تھا ۔۔۔
سلامتی کی دعا دے دی گئی تھی فرشتوں کا آمین قبول کرلیا تھا تو جیسے وقت پھر سے چل پڑا تھا ۔۔۔۔۔۔۔اسکا ہاتھ تھام کر اب وہ اسکی لمبی مخروطی انگلیوں کی پوروں پر درود شریف کی تسبیح کر رہا تھا ۔۔۔وہ اس کا لمس محسوس کر رہی تھی اور اتنا خوبصورت محسوس کر رہی تھی کہ بےساختہ دل چاہا کہ اسکی بھوری آنکھوں میں جھانک لے اور کہے کہ کہا تھا نا تمہاری ہوں لو آج رب کے سامنے بھی گواہی دے دی پر نظریں اٹھنے سے انکاری تھی ۔۔۔
وہ سر جھکائے بس اسکی انگلیوں کو دیکھ رہی تھی جو پورے استحاق سے اسکی انگلیوں کی پوروں پر تسبیح پڑھ رہی تھیں ۔۔کہیں لگتا کہ آنسو ابھی چھلک پڑیں گے تو کہیں دھیمی سی مسکان اسکے لبوں کا احاطہ کر رہی تھی ۔۔۔ایک سکون و اطمینان کے ساتھ جیسے رگ و پے میں اتر رہا تھا ۔۔۔ تسبیح مکمل ہوئی تودونوں سر جھکائے بند آنکھیں لئے دعا مانگنے کی جیسے کوشش میں تھے ۔
۔۔ اب کچھ مانگنا باقی رہ گیا تھا کیا ؟؟اب تو بس شکر ہی شکر تھا ۔۔۔وہ پورا اسکی طرف مڑا تھا اور آگے بڑھ کر پھونک دیا تھا اسکے چہرے پہ جو آنسو ضبط کیے بیٹھی تھی ۔۔۔اسکا دوپٹہ ڈھلک کر مزید اسکی پیشانی کو چھپا گیا تھا نظریں جیسے اٹھنے سے انکاری تھیں ۔۔۔فبای الا ربکما تکذبن”وہ اسکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے یہ آیت پڑھ رہا تھا
گویا حلف اٹھا رہا تھا کہ تمہارے ہونے کے بعد مجھ پر رب کی رحمتیں مکمل ہوگئیں ہیں۔۔۔اس کے ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے بہت آہستگی سے سہلا رہا تھا ۔۔۔ جیسے مان دے رہا تھا ۔۔۔وہ سورہ رحمٰن کی تلاوت سنتے اسکی گود میں سر رکھ چکی تھی اور آنکھیں موند لی تھیں ۔۔
وہ شخص کیا تھا وہ شائد کبھی جان ہی نہی پائی ۔۔۔۔اتنے سال وہ تڑپتی رہی تھی اس کیلئے کبھی نظر تک اٹھا کر نہ دیکھا تھا اس نے اور آج اسے رب کے سامنے لئے بیٹھا تھا کیا اس سے بہتر بھی کوئی اظہار ہوسکتا تھا ؟؟محبت تو محبت ہوتی ہے کسی وحی کی طرح دلوں پہ اترتی ہے کیا پتہ کب کہاں ازل ہوجائے ۔۔اور کب پہلی محبت پہ آخری محبت کی مُہر لگ جائے ۔
از قلم؛
ملک اذان خان