ذرا سی دھوپ میں
مظہر شہزادخان
ذرا سی دھوپ میں کیسا دکھائی دیتا ھے
کہ اپنا سایہ بھی الٹا دکھائی دیتا ھے
میں آس پاس کے لوگوں سے کم ھی ملتا ھوں
مجھے تو دور سے اچھا دکھائی دیتا ھے
اسے میں پیڑ کی صورت میں چھاؤں دیتا ھوں
اگر کہیں بھی پرندہ دکھائی دیتا ھے
وھیں چراغ جلاتا ھوں روشنی کے لئے
جہاں کہیں پہ اندھیرا دکھائی دیتا ھے
تلاش کرتا ھوں میں شہر کے کتب خانے
مگر یہ شہر ھی اجڑا دکھائی دیتا ھے
جو میرے پاؤں سے لپٹا ھوا ھے اندیشہ
سفر سے پہلے ھی خطرہ دکھائی دیتا ھے
کبھی جو یاد کا بادل کلام کرتا ہے