خواجہ معین الدین چشتی
خواجہ معین الدین چشتی کا آبائی وطن سیستان کا سنجر علاقہ تھاجو وسط ایشیا میں پڑتا ہے۔ ایک روایت کے مطابق یہیں ۵۳۶ھ میں آپ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ خاندان بااثر اور دولت مند تھا۔ والد محترم خواجہ غیاث الدین حسن تجارت پیشہ ہونے کے ساتھ ساتھ عابد وزاہد بھی تھے۔آپ کی پرورش نازونعمت کے ساتھ ہوئی اور پچپن معاشی خوشحالی میں گزرا۔ یہ الگ بات ہے کہ دوسرے قسم کے حالات پریشان کئے رہے۔ آپ نسبی اعتبار سے نجیب الطرفین سید تھے۔ سلسلہ نسب پندرہ واسطوں سے حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے۔
جس دور میں خواجہ صاحب کی ولادت ہوئی وہ زمانہ عالم اسلام کے لئے مصیبتوں اور پریشانیوں سے بھرا ہو اتھا۔ منگولوں کی تاراجی عام تھی، مسلم ممالک میں کشت وخون کا بازار گرم تھا۔ خانہ جنگی اور تخت وتاج کے لئے بھی لڑائیاں جاری تھیں۔ اسی کے ساتھ مسلمانوں کے اندر بڑے پیمانے پر فرقہ بندیاں چل رہی تھیں نیز مذہب، مسلک و مشرب کے نام پر برادر کشی ہورہی تھی۔جہاں ایک طرف ملاحدہ اور باطنیوں نے اودھم مچا رکھی تھی وہیں تاتاریوں کے وحشی گروہ خون خرابے پر آمادہ تھے۔
اس ماحول میں آپ نے ہوش وخرد کی آنکھیں کھولیں اور آپ کی تعلیم وتربیت کا دور شروع ہوا۔ آپ کے والد نے حالات کو دیکھتے ہوئے سیستان چھوڑ نے کا فیصلہ کیا اور خراسان چلے آئے، جہاں خطرات قدرے کم تھے اور یہیں خواجہ صاحب کی تعلیم شروع ہوئی، مگر جلد ہی یہ جگہ بھی غیر محفوظ ہوگئی اور یہاں بھی تاراجی شروع ہوگئی۔ خراسان، جہاں پہلے امن وامان تھا وہاں کی حالت بھی دوسرے علاقوں کی طرح ہوگئی ۔ یہاں خانہ جنگی کا یہ عالم تھا کہ جو جسے چاہتا قتل کردیتا۔ کوئی حکومت نہیں تھی اور کسی کے سامنے دادوفریاد نہیں کی جاسکتی تھی۔ خواتین کی عصمتوں کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا۔ مسجدوں اور مقدس مقامات کو بھی نہیں بخشا گیااوریہاں بھی کشت وخون کی گرم بازاری ہوئی۔ کتب خانوں کونذر آتش کیا گیا اور محلات ومکانات ڈھا دیئے گئے۔
شہید ہونے والوں میں علماء، فضلاء، اولیاء، صوفیہ اور ممتازاکابرین دین بھی تھے۔ خواجہ صاحب کی نظروں کے سامنے یہ سب ہوا ،اور ان حالات نے بچپن میں ہی آپ کے دل کو اچاٹ کردیا۔ جب آپ کی عمر محض پندرہ سال تھی تب والد کا انتقال ہوگیا اور مزید پریشانیوں نے گھیر لیا۔ والدہ محترمہ بی بی نور نے آپ کی تعلیم وتربیت کی طرف خاص توجہ فرمائی مگر جلد ہی دست قضا نے انھیں بھی آپ سے چھین لیا اور آپ کشمکش حیات میں تنہا رہ گئے۔ والدین کے ورثے سے ایک باغ اور ایک پن چکی آپ کو ملی تھی لہٰذا آپ نے باغبانی کو معیشت کا ذریعہ بنایا اور باغ کی دیکھ بھال میں مصروف ہوگئے۔ اپنے ہاتھوں سے باغ کی حفاظت کرتے اور پانی وکھاد وغیرہ دینے کے ساتھ اس کی کاٹ چھانٹ کرتے تھے۔
خواجہ صاحب کی زندگی کا انقلابی واقعہ
والدین کے انتقال کے بعد نوعمر خواجہ کی زندگی دھیرے دھیرے پٹری پر آرہی تھی کہ اچانک ایک روحانی واقعے نے آپ کی زندگی کا رخ بدل دیا۔ ایک روز آپ اپنے باغ میں مصروف تھے کہ ایک مجذوب فقیر کا ادھر گزر ہوا جس کا نام ابراہیم قندوزی تھا۔ یہ بزرگ دنیا کے تمام ہنگاموں سے بے نیاز رہتے
تھے اور اکثر ادھر ادھر گھومتے رہتے تھے۔ خواجہ صاحب نے انھیں باغ میں دیکھا تو خوش ہوئے اور مدارات کے طور پر انگوروں کا ایک تازہ خوشہ ان کی خدمت میں پیش کردیا۔صاحب نظر نے صاحبِ دل کو پہچان لیا اور محسوس کرلیا کہ نوجوان کام کا آدمی ہے۔ اپنی گٹھری سے روٹی کا ایک خشک ٹکڑا نکال کر بڑھایا۔ خواجہ صاحب نے اسے کھایا تو عشق وعرفان کی کیفیات نے دل پر اثر جمانا شروع کردیا۔ ایک روحانی انقلاب کا احسا س ہونے لگا۔ بزرگ تو اپنا کام کرکے چلے گئے مگر جلد ہی آپ نے اپنا باغ اور پن چکی فروخت کرڈالی اور حاصل شدہ رقم غریبوں میں تقسیم کر کے تن تنہا نکل پڑے۔
تعلیمی سفر
یہ وہ زمانہ تھا جب سمرقندوبخارا کو اسلامی علوم وفنون کے معاملے میں مرکزیت حاصل تھی اور تفسیر، تجوید، فقہ وحدیث کے علماء یہاں بڑی تعداد میں موجود تھے۔ آپ نے بھی اسی طرف کا رخ کیا اور ظاہری علوم میں مہارت حاصل کرنے لگے۔ قرآن کریم حفظ کیا، اس کے بعد تفسیر، حدیث اور فقہ کی تعلیم پائی۔ کن کن علماء سے آپ نے تعلیم پائی اس بارے میں سوانح کی کتابیں خاموش ہیں البتہ مولانا حسام الدین بخاری نامی ایک بزرگ سے آپ نے حفظ قرآن کیا تھا۔ تحصیل علم کے بعد روحانی رہنمائی کے لئے مرشد کی تلاش میں نکل پڑے اور کئی شہروں اور ملکوں کا سفر کرتے رہے۔
مرشد سے بیعت
خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ جب عراق کے قصبہ ہارون پہنچے تو دلی مراد برآئی اور آپ کی ملاقات خواجہ عثمان ہارونی سے ہوئی، جنھوں نے سلوک ومعرفت میں آپ کی رہنمائی فرمائی۔ آپ ایک مدت تک ان کے ساتھ رہے اور ان سے متاثر ہوئے، تب ان کی بیعت اختیار کی۔ خواجہ صاحب نے ان کے ساتھ کئی طویل سفر کئے اور ان سے روحانی تربیت پائی۔اس دوران عبادت وریاضت کئے اور اہل اللہ سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ اندازہ ہے کہ تقریباً ڈھائی سال تک آپ اپنے مرشد کی خدمت میں رہے۔ اسی بیچ حج بیت اللہ بھی ادا کیا ۔ خواجہ صاحب کے بارے میں آپ کے مرید وخلیفہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے لکھا ہے کہ آپ طویل عبادتیں کیا کرتے تھے اور مسلسل کئی کئی دن تک روزے رکھا کرتے تھے۔ افطار بہت کم مقدار میں کرتے تھے۔ جسم پر معمولی لباس ہوتا تھا اور اس پر بھی کئی کئی پیوند لگے ہوتے تھے۔
طویل سفر
سفر اس دنیا کو سمجھنے میں بہت معاون ہوتا ہے اور نئے نئے تجربے سے گزارتا ہے۔یہی سبب ہے کہ بیشتر صوفیہ کے تذکروں میں ملتا ہے کہ انھوں نے لمبے لمبے سفر کئے۔ خواجہ صاحب نے بھی اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ سیرو سیاحت میں گزارا۔ پہلے تو تعلیم کے لئے سفر کیا ، اس کے بعد مرشد کی تلاش میں نکلے، پھر مرشد کے ساتھ سفر کرتے رہے مگر خواجہ عثمان ہارونی کی خدمت سے رخصت ہونے کے بعد بھی آپ کا سفر جاری رہا اور کئی خطوں کی سیاحت کی۔
اس سفر میں کئی صوفیہ اور اللہ والوں سے آپ کی ملاقات ہوئی اور آپ کو سیکھنے اور سکھانے کا موقع ملا۔ جن بزرگوں سے آپ کی ملاقاتیں رہیں ان میں ایک شیخ نجم الدین کبریٰ رحمۃ اللہ علیہ تھے جو معروف صوفیہ میں شامل ہیں۔ بغداد سے سات میل کے فاصلے پر ایک قصبے میں آپ ان سے ملے تھے۔ اس دوران بغداد میں بھی خواجہ صاحب کا قیام رہا۔ تب یہاں عباسی خلیفہ المستنجدبااللہ ابوالمظفر یوسف بن المقتضی لامراللہ کی حکومت تھی۔یہ وہ زمانہ تھا جب عباسی خلافت نازک دور سے گزر رہی تھی اور مصر کی فاطمی خلافت کا زور بڑھ رہا تھا۔
بغداد سے آپ تبریز تشریف لے گئے جو ایران کا شہر ہے۔ یہاں خواجہ ابوسعید تبریزی رہتے تھے جو باکمال بزرگوں میں تھے اور ان کے مریدین میں بڑے بڑے اولیاء شامل تھے۔ یہاں دونوں بزرگوں کی ملاقات ہوئی اور کچھ دن قیام کے بعد آپ اصفہان کی طرف چل پڑے۔ یہ بھی ایران کا شہر ہے۔ یہاں شیخ محمود اصفہانی سے آپ کی ملاقات ہوئی ۔ یہیں آپ کو خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ملے جو شیخ سے مرید ہونے کے ارادے سے آئے تھے۔ خواجہ قطب نے جب آپ کو دیکھا تو شیخ سے مرید ہونے کا ارادہ ترک کردیا اور آپ کے ساتھ ہولئے۔ خواجہ معین الدین چشتی نے بھی آپ کے ذوق وشوق کو پسند فرمایا اور اپنے مریدوں میں شامل کرلیا نیز خلافت واجازت بھی مرحمت فرمائی۔
اصفہان کے بعد خرقان آپ کی اگلی منزل قرار پائی۔ یہاں جب تک رہے وعظ ونصیحت کرتے رہے اور خلق خدا کو راہ راست پر لانے کے کام میں لگے رہے۔ یہاں بہت سے لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور گناہوں سے تائب ہوئے۔ یہاں سے استرآباد آئے جہان شیخ ناصر الدین نامی ایک ولی رہتے تھے۔ ان کا سلسلہ بیعت دو واسطوں سے بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ تک پہنچتا تھا۔ خواجہ صاحب شیخ کے کمالات کے گرویدہ ہوئے اور ان سے اکتساب فیض کیا۔ یہاں سے آگے بڑھنے کے بعد مختلف علاقوں سے پھرتے پھراتے آپ ہرات پہنچے ۔ ہرات میں آپ گھومتے رہتے تھے اور قدرت کی بوقلمونیوں کا
نظارہ کرتے رہتے تھے۔ یہاں ایک بزرگ خواجہ عبداللہ انصاری کا مزار تھا جس کے قریب آپ رات گزارتے تھے اور پوری رات عبادت وریاضت میں مصروف رہتے تھے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا یہاں کے لوگوں کو آپ کے بارے میں جانکاری ملتی گئی اور وہ آپ کے پاس جمع ہونے لگے۔ہجوم اس قدر بڑھا کہ دن اور رات میں لوگ چین نہیں لینے دیتے اور آپ کی عبادت وریاضت میں مخل ہونے لگے ، لہٰذا یہاں سے بھی آگے بڑھ گئے اور سبزوار کے علاقے میں پہنچے۔ یہ دونوں شہر افغانستان میں واقع ہیں۔ یہاں ایک بدمزاج اور ظالم سردار یادگار محمد کے باغ میں آپ کا قیام ہوا، جس نے آپ کو تکلیف پہنچانے کی کوشش کی مگر جلد ہی آپ کے زیر اثر آگیا اور اپنے گناہوں سے تائب ہوکر آپ کے مریدوں میں شامل ہوگیا۔ یادگار محمد نے کچھ دن آپ کے ساتھ وقت بتایا اور روحانی تربیت پاکر اللہ والوں کی جماعت میں شمولیت اختیارکیا۔ یادگار محمد نے اپنی تمام جمع پونجی خواجہ صاحب کی خدمت میں پیش کردی اور آپ نے حکم دیا کہ جن لوگوں کے مال واسباب اس نے ظلم سے حاصل کئے ہیں انھیں واپس کردے اور اس نے ایسا ہی کیا ۔ باقی جو کچھ بچا اسے اللہ کے راستے میں خیرات کردیا۔
خواجہ صاحب کے قدم ہندوستان کی طرف بڑھ رہے تھے مگر راہ میں افغانستان کا علاقہ تھا، جہاں کئی شہر اور قصبات کو آپ کی قدم بوسی کا شرف حاصل ہوا۔ بلخ بھی انھیں خطوں میں سے ایک ہے۔ یہاں شیخ احمد خضرویہ کی خانقاہ تھی جہاں آپ کا قیام ہوا۔ بلخ میں ایک فلسفی رہتا تھا جس کانام ضیاء الدین تھا۔ اسے روحانی علوم پر یقین نہیں تھا اور اپنے شاگردوں کو بھی اسی قسم کی تعلیم دیتا تھا مگر خواجہ صاحب سے ملاقات کے بعد اس کے نظریے میں تبدیلی آئی اور اس نے نہ صرف تصوف وروحانیت کو سمجھا بلکہ آپ کا مرید بھی ہوگیا۔ آپ نے تربیت فرمانے کے بعد خلافت واجازت مرحمت فرمائی اور یہاں سے رخصت ہوکر غزنی کی طرف چل پڑے۔ اس زمانے میں غزنی اور بلخ کے حالات اچھے نہیں تھے اور یہاں امن وامان کی کمی تھی۔ غزنی میں شیخ عبدالواحد غزنوی رہتے تھے جو ایک صاحب کمال بزرگ تھے۔ آپ شیخ نظام الدین ابوالموئدکے مرشد تھے۔ ان سے ملاقات کی بعد آپ کی اگلی منزل ہندوستان تھی جہاں اسلام کا دائرۂ اثر سندھ اور پنجاب کے کچھ علاقوں تک ہی محدود تھا۔
ہندوستان میں داخلہ
خواجہ معین الدین چشتی کا ہندوستان سے گہرا تعلق ہے اور یہاں اہل اسلام کی شناخت آپ ہی کے حوالے سے ہوتی رہی ہے۔ خواجہ صاحب کا مزاج کسی ایک مقام پر ٹھہرنا پسند نہیں کرتا تھا یا حالات ہی کچھ ایسے تھے کہ آپ کسی ایک جگہ ٹک کر نہیں بیٹھے مگر آپ کی اصل منزل ہندوستان تھی، جہاں آنے کے بعد پھر آپ نے کہیں اور جانا قبول نہیں کیا۔ پورے مشرق وسطیٰ اور سنٹرل ایشیا کی سیر وسیاحت کرتے ہوئے، سندھ کے راستے ہندوستان میں داخل ہوئے۔ آپ کے ساتھ مریدوں کی ایک جماعت بھی تھی جن میں آپ کے خلیفہ خاص خواجہ قطب الدین بختیار کاکی بھی تھے۔
اللہ والوں کی یہ مقدس جماعت جب ہندوستان میں داخل ہوئی تو سب سے پہلے وہ علاقے اس کے قدموں کے نیچے آئے جہاں مسلمانوں کے شہر آباد تھے اور اذان ونماز کا قیام ہوچکا تھا۔ ایسا ہی ایک شہر لاہور بھی تھا۔ لاہور کو شیخ علی ہجویری (داتا گنج بخش) کے سبب جانا جاتا تھا جنھوں نے یہاں ایک مدت تک تبلیغ اسلام کیا تھا اور اب یہیں آسودہ خواب تھے۔خواجہ صاحب نے لاہور میں ان کے مزار کے قریب کچھ دن قیام فرمایا اور چلہ کشی کی۔ یہاں سے رخصت ہوتے ہوئے آپ کی زبان پر چند مصرعے آئے جو آج بھی لوح مزار پر ثبت ہیں:
گنج بخشِ فیض عالم، مظہر نورِ خدا
ناقصاں را پیر کامل، کاملاں رارہنما
خواجہ صاحب جب دلی پہنچے
دلی کو ہندوستان کا مرکز مانا جاتا رہا ہے مگر یہ مرکزیت مسلم بادشاہوں کے زمانے میں اسے حاصل ہوئی۔ قدیم زمانے میں ہندوستان چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بنٹا ہوا تھا جن پر سینکڑوں راجہ حکومت کرتے تھے۔ خواجہ صاحب لاہور ہوتے ہوئے دلی آئے۔ تب یہاں پرتھوی راج چوہان کی حکومت تھی جسے رائے پتھورا کے نام سے بھی تاریخ میں یاد کیا جاتا ہے۔ اس کے زیر حکومت علاقوں میں دلی اور اجمیر خاص تھے۔ گو افغانستا ن کے حکمراں شہاب الدین محمد غوری نے کئی با ر ہندوستان پر حملے کئے تھے مگر رائے پتھورا کی قیادت میں راجگان ہند کی فوجوں نے اسے پسپا ہونے پر مجبور کردیا تھا اور اندورن ہند اس کے داخل ہونے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوسکی تھیں۔ اس سے پہلے محمود غزنوی نے بھی حملہ کیا تھا مگر اس نے خود کو لوٹ پاٹ تک ہی محدود رکھا اور یہاں حکومت کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔
خواجہ صاحب جن خطوں کی سیر کرتے ہوئے دلی پہنچے تھے، ان میں تقریباً تمام علاقے مسلمانوں سے بھرے ہوئے تھے مگر دہلی،ایک اللہ کا نام لینے والوں سے خالی تھی۔ یہ وہ مقام تھا جہاں ہدایت ورہنمائی کا کام کرنے کی ضرورت تھی ۔ یہاں ایک مدت تک آپ کا قیام رہا اور تبلیغ دین کے کام میں مصروف رہے۔ دلی والوں کے لئے اسلام ایک اجنبی مذہب ضرور تھا مگر آپ کی خوش خلقی اور خدمت خلق نے جلد ہی لوگوں کو آپ کا گرویدہ بنا لیا اور انھیں اسلام کے ساتھ تصوف وروحانیت سے آشنائی ہونے لگی۔ لوگوں کا ہجوم آپ کے گرد جمع ہونے لگا مگر آپ نے یہاں مستقل قیام کا ارادہ نہیں کیا ۔ آگے بڑھتے ہوئے اپنے ایک مرید وخلیفہ اور تربیت یافتہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کو یہاں چھوڑتے گئے۔ قطب صاحب نے یہاں اپنی باقی زندگی دعوت دین کے کام میں لگادی اور یہیں انتقال بھی فرمایا۔
خواجہ صاحب اجمیر میں
اجمیر،راجستھان کا ایک دورافتادہ شہر تھامگر اس لحاظ سے خواجہ صاحب کا مسکن بننے کا مستحق تھا کہ یہاں دعوتی کام کرنے کے امکانات تھے۔ اجمیر میں راجہ پرتھوی راج چوہان کی راجدھانی تھی اور علاقے میں ہونے والے ایک ایک واقعے پر اس کی نظر رہتی تھی، چنانچہ ایک مسلمان درویش کی آمد بھی اس کی نظر سے نہیں چھپ پائی۔ خواجہ صاحب کے یہاں قیام کے بعد رفتہ رفتہ آپ کے عقیدت مندوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہونے لگا تھا اور مقامی لوگ آپ کے گرویدہ ہونے لگے۔
آپ کے پیغامات ان کے لئے نئے تھے۔ ہندوستانی سماج جن رسموں، رواجوں کا عادی تھااس کے برعکس انسانیت کی تعلیم آپ دے رہے تھے۔ ذات پات کے بندھن ٹوٹ رہے تھے اور مساوات کا پیغام عام ہورہا تھا۔ خاص طور پر سماج کے دبے کچلے طبقات میں آپ کی تعلیمات کی پیروی کو لے کر زیادہ جوش وجذبہ تھا۔ یہی سبب ہے کہ آپ کے پیروکار دن بہ دن بڑھ رہے تھے۔ فطری طور پر اس سے راجہ کو پریشانی ہوسکتی تھی۔ کسی درویش کی عوامی مقبولیت ایک حکمراں کو اندیشے میں مبتلا کرنے کے لئے کافی تھی۔
اس کا ایک سیاسی پہلو بھی تھا۔ راجہ کے ملک پر شہاب الدین محمد غوری متعدد بار حملے کرچکا تھا۔ ایسے میں کسی مسلمان درویش کے اثرات میں اضافہ سے سیاسی نقصان بھی ہو سکتا تھا۔ مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ کا مطلب یہ تھا کہ ان کی ہمدردی راجہ کے بجائے حملہ آور سے ہوسکتی تھی اور خواجہ صاحب کے زیر اثر جو لوگ آچکے تھے، ان میں راجہ کے بعض درباری بھی تھے۔ کتابوں میں ایک اونٹوں والا واقعہ بیان کیا گیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خواجہ صاحب سے راجہ کا پہلا تعارف ہی ایک تصادم کے ساتھ ہوا تھا۔ واقعہ یوں ہے کہ خواجہ صاحب اجمیر پہنچے اور ایک مقام پر درختوں کے سایے میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھ گئے۔ یہ وہ مقام تھا جہاں راجہ کے اونٹ بیٹھا کرتے تھے۔
چنانچہ راجہ کے خادموں نے آپ سے کہا کہ یہاں قیام نہ کریں کیونکہ یہاں راجہ کے اونٹ بیٹھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ہاں اونٹ بیٹھ جائیں گے ،جگہ کی کمی تو ہے نہیں مگر انھوں نے ضد کی کہ آپ کسی اور جگہ جائیں۔ آخر کار آپ یہ کہتے ہوئے اٹھ گئے کہ ٹھیک ہے ،یہاں راجہ کے اونٹ بیٹھتے ہیں تو وہی بیٹھا کریں۔ صبح کے وقت جب اونٹوں کو اٹھایا جانے لگا تو وہ زمین میں چپک کر رہ گئے ۔ ایک اونٹ بھی نہ اٹھ سکا۔ اس واقعے کی اطلاع جب راجہ کو دی گئی تو اس نے کہا کہ جاؤ، درویش کو ڈھونڈو اور اس سے معافی مانگو۔ چنانچہ جب خادموں نے آکر آپ سے معافی مانگی اور آپ نے معاف فرمادیا تو اونٹ بھی اٹھ گئے۔
یہ واقعہ آپ کی کرامت ہے، جس کا ذکر متعدد کتابوں میں ملتا ہے۔ اگر یہ واقعہ درست ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ راجہ سے آپ کا ٹکراؤ اسی ناخوشگوار واقعے کے ساتھ شروع ہوگیا ہوگا اور اس واقعے کے بعد آپ کی شہرت اجمیر اور دوسرے علاقوں میں ہوگئی ہوگی۔ اس طرح جب یہاں آپ کچھ دن مقیم رہے اور خلقِ خدا آپ کے پاس جمع ہونے لگی تو راجہ کو تکلیف کا ہونا فطری تھا۔ ایک وہ وقت بھی آیا جب راجہ نے آپ کو اجمیر چھوڑدینے کا حکم دیا اور کہا کہ اس کا ملک چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں۔
حالانکہ اس سے پہلے آپ نے اسے اسلام کی دعوت بھی دی اور اس کی خوبیوں سے آگاہ کیا مگر اس نے یہ دعوت قبول کرنے سے انکار کردیا اور آپ کے خلاف اس قدر سخت ہوگیا کہ آپ کو اجمیر چھوڑ نے پر مجبور کرنے لگا۔ یہ ایک مشکل وقت تھا اورآپ کی زبان سے جلا ل میں نکلا کہ’’ میں نے تجھے گرفتار کرکے زندہ لشکر اسلام کو سپرد کیا۔ ‘‘ یہ آپ کی کرامت تھی ،ایک اللہ والے کی زبان کا اثر تھا یا مستقبل بیں نگاہیں راجہ کے مستقبل کو دیکھ رہی تھیں؟ کیونکہ جیسا آپ نے کہا تھا ٹھیک ویسا ہی ہوا اور جس راجہ نے بار بار غوریوں کو شکست دے کر بھاگنے پر مجبور کیا تھا وہ خود ذلت آمیزشکست سے ہمکنار ہوکر گرفتار ہوا
شہاب الدین محمد غوری کے حملے
ہندوستان پر شہاب الدین محمد غوری کے حملے جاری تھے۔ وہ متعدد بار حملے کرچکاتھا مگر کامیابی نہیں ملتی تھی۔پرتھوی راج چوہان اور ہندوستان کے راجاؤں کی فوجیں اسے روکنے میں کامیاب ہوجاتی تھیں۔ آخر کار۵۸۷ھ (۱۱۹۱ء) میں جب کہ اجمیر میں خواجہ صاحب موجود تھے ایک بار پھر شہاب الدین محمد غوری کا حملہ ہوا اور ترائن کے مقام پر ہندوستان کے راجاؤں کی مشترکہ فوجوں نے اسے روکنے کی کوشش کی اور کامیاب بھی ہوئے مگر سال بھر بعد ہیدوبارہ غوریوں نے حملہ کردیا۔
اِس بار تراوڑی کے مقام پر جنگ ہوئی اور اِس بار بھی وہی فوجیں تھیں جو پچھلی بار تھیں مگر غوریوں نے بے جگری سے مقابلہ کیا اور ان کی جیت ہوئی۔ مورخ قاسم فرشتہ کے مطابق غوری ایک لاکھ کی تعداد میں تھے، جب کہ راجگان ہند کی فوجیں تین لاکھ سے زیادہ تھیں۔اس جنگ میں کئی راجہ قتل کئے گئے اور جو باقی بچے انھوں نے میدان چھوڑ کر نکل جانے میں عافیت جانی۔ پرتھوی راج چوہان نے بھاگ کر جان بچائی مگر محمد غوری کے لشکر نے اسے گنگا کے کنارے جاپکڑا اور گرفتار کرکے سلطان کے سامنے پیش کردیا۔ سلطان نے اسے قتل کرنے کا حکم دیا۔
دلی میں مسلم سلطنت کا قیام
تاریخی کتابوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس دور میں ہندوستان کے اندرونی حصے میں مسلمانوں کی آمد ورفت شروع ہوچکی تھی اور ہندوستانی راجاؤں کے لشکر میں مسلمان بھی ملازم تھے مگر بہت کم تعداد میں وہ یہاں نظر آتے تھے۔ ان کی کچھ بستیاں سندھ سے آگے گجرات تک میں بس گئی تھیں مگر اس سے آگے وہ نہیں بڑھے تھے۔ سلطان شہاب الدین محمد غوری کے حملے کے بعد دلی میں پہلی بار ایک مسلم حکومت قائم ہوئی۔ ہندوستان فتح کرنے کے بعد غوری خود واپس چلا گیا مگر یہاں اپنے نائب کے طور پر اپنے ایک غلام قطب الدین ایبک کو چھوڑتا گیا۔
وہ دلی میں سلطان غوری کا گورنر تھا۔حالانکہ محمد غوری کی موت کے بعد دلی مرکز سے آزاد ہوگئی۔ سلطان نے اجمیر کا گورنر پرتھوی راج چوہان کے بیٹے کو بنا دیا تھاجو اس کے ماتحت تھا۔ یہ سلطنت بعد میں صدیوں تک قائم رہی اور خاندان بدلتے رہے مگر دلی پر مسلمان ہی حکمراں رہے۔ دلی کو مرکز بناکر انھوں نے پورے ملک پر حکومت کی جس کا مکمل خاتمہ ۱۸۵۷ء میں انگریزوں کے ہاتھوں ہوا۔
خواجہ صاحب کی خدمات
خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی دینی ،اصلاحی اور سماجی خدمات بہت زیادہ ہیں جنھیں احاطۂ تحریر میں لانے کے لئے ایک عمر چاہئے۔ آپ نے اسلام کی ترویج واشاعت کے لئے ایک ایسے خطے کا انتخاب کیا جہاں توحید کے نام لیوا بلکل نہ تھے۔ یہاں کی زبان اور تہذیب آپ کے لئے نئی تھی اور اس سے آپ کو آشنائی نہیں تھی ۔
حکومت بھی ایسی تھی جس سے تعاون کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی تھی۔ایک نئے ملک میں جہاں کا ماحول اجنبی تھا جہاں کی زبان اجنبی تھی اور جہاں کی تہذیب وتمدن خواجہ صاحب کے لئے اجنبی تھے،اور ہر لمحے جان جانے کا خوف بھی تھا۔ ایسے ماحول میں خود کو لاکھڑا کرنا بڑے دل گردے کا کام تھا۔ آپ نے ایک ایسے چیلنج کو قبول کرلیا جس کے تصورسے ہی اچھے اچھوں کا خون پانی ہونے لگے۔ اجمیر کا وہ دور آپ نے دیکھا جب آپ کے سامنے متعدد رکاوٹیں تھیں مگر صبر کے ساتھ اپنے کام میں لگے رہے کیونکہ آپ کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی تھی۔
اس کے بعد وہ دور بھی آیا جب دلی اور اجمیر سمیت ملک کے بڑے حصے پر مسلمان بادشاہوں کی حکومت قائم ہوگئی اور آپ کے راستے کی رکاوٹیں دور ہوگئیں۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ آپ کی بارگاہ میں مسلمان اور ہندو سبھی آسکتے تھے اور آپ ان سے مل کر ان کے سامنے اپنی باتیں پیش کرسکتے تھے۔ یہاں تک کہ جو اسلام نہیں قبول کرتے تھے وہ بھی عقیدت رکھتے تھے اور آپ کی خدمت میں تحف وتحائف پیش کیا کرتے تھے۔
اجمیر کو مرکز بنا کر خواجہ معین الدین چشتی نے اپنا مشن جاری رکھااور یہاں سے تربیت دے کر مبلغین وداعیان اسلام کوملک کے مختلف حصوں میں بھیجتے رہے۔ آپ نے اجمیر میں ہی شادی کی اور اپنے بچوں کو بھی اشاعت دین کے کام میں لگایا۔ یہاں تک کہ آپ کی بیٹی بی بی حافظ جمال جن کی قبر آپ کے مقبرے کے احاطے میں ہے، انھیں بھی آپ نے اس کی تربیت دی تھی اور وہ خواتین کے اندر اشاعت اسلام کے لئے کوشاں رہتی تھیں۔ یونہی آپ کے خلفاء اور خلفاء کے خلفاء بھی تبلیغ دین اور خدمت خلق کے کام میں مصروف رہے۔
ان میں خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، شیخ حمید الدین ناگوری، شیخ وجیہہ الدین ، سلطان مسعود غازی اور شیخ وحیدالدین خراسانی کے نام قابل ذکر ہیں جنھیں آپ کے الگ الگ علاقوں میں تبلیغ اسلام کے کام میں لگایا تھا۔خواجہ صاحب کے تربیت یافتہ ان بزرگوں اور ان کے بعد ان کے خلفاء اور جانشینوں کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ ملک کے گوشے گوشے میں اسلام کی روشنی عام ہونے لگی اور ہر طرف اذان وقرآن کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔
خواجہ صاحب نے تبلیغ دین کے لئے مبلغین کی ایک جماعت تیار کرنے کی غرض سے اجمیر میں ایک مدرسے کی بنیاد رکھی جہاں علم حاصل کرنے کے لئے دور دراز سے طالبان علم آنے لگے۔ یہاں کے تربیت یافتگان بعد کے دور میں ہر سمت پھیلے اور دین کے کاموں میں مصروف ہوئے۔ یہاں آپ نے ایک مسجد کی تعمیر بھی کرائی تھی۔
خواجہ صاحب نے اپنی باتیں عوام تک پہنچانے کے لئے عموماً تقریر اور خدمت خلق کا سہارا لیا ہے۔تاہم آپ بے حد تعلیم یافتہ تھے اوراسلامی علوم کیساتھ ساتھ زبان وبیان پر بھی قدرت رکھتے تھے ۔ اس لحاظ سے اگر کچھ کتابیں بھی آپ نے تصنیف فرمائی ہوں تو ممکن ہے۔ ایک کتاب جو آپ کی طرف منسوب کی جاتی ہے وہ وہ ’’انیس الارواح‘‘ ہے جو خواجہ عثمان ہارونی کے ملفوظات کا مجموعہ ہے۔ مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ آپ ہی کی تصنیف ہے۔ اسی طرح ’’گنج الاسرار‘‘ نامی کتاب کو بھی بعض لوگوں نے آپ کی تحریر بتایا ہے۔
اس بارے میں کہا جاتا ہے کہ سلطان شمس الدین التتمس کی تعلیم وتلقین کے لئے آپ نے یہ کتاب لکھی تھی۔ اس کتاب سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ کو اجمیر میں قیام کا حکم خواجہ عثمان ہارونی نے دیا تھا ۔ ’’حدیث المعارف‘‘ نامی کتاب بھی آپ کی تصنیف بتائی جاتی ہے علاوہ ازیں دیوان خواجہ کوآپ کا شعری کارنامہ قرار دیا جاتا ہے، جس میں تصوف وعرفان کے موضوع پر۱۲۱ غزلیں ہیں۔ سوائے ’’انیس الارواح‘‘ کے سبھی کتابوں کے بارے میں مورخین کا اختلاف ہے کہ وہ آپ کی طرف درست منسو ب ہیں یا غلط۔
خواجہ معین الدین چشتی جب ہندوستان تشریف لائے تو یہاں اسلام کے نام لیوا مشکل سے نظر آتے تھے مگر جب ۶۳۳ھ میں آپ کا انتقال ہوا تو یہاں ہر طرف اسلام کا بول بالا تھا۔ اسی سال سلطان شمس الدین التتمش کا انتقال ہوا اور اسی سال آپ کے خلیفہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے بھی انتقال فرمایا۔یہ وہ دور تھا جب دلی میں اسلامی سطوت کی علامت مسجد قوت الاسلام اور اس کے مئذنہ قطب مینار کی تعمیر عمل میں آچکی تھی۔ آج ہندوستان میں جو اسلام وتوحیدکی روشنی نظر آتی ہے یہ کہیں نہ کہیں اسی چراغ کا نور ہے جسے خواجہ صاحب نے روشن کیا تھا۔
ابوالفضل لکھتا ہے:
’’آپ نے اجمیر میں گوشہ نشینی اختیار کی، اسلام کا چراغ خوب جلایا، اور آپ کے دم قدم سے گروہ درگروہ لوگوں نے اکتساب فیض کیا۔‘‘ (آئین اکبری)
شہزادہ داراشکوہ نے لکھا ہے کہ
’’منکروں کی بڑی جمعیت نے ان کے قدموں کی برکت سے اسلام قبول کرلیااور جن لوگوں نے اسلام نہیں قبول کیا تھا وہ بھی آپ کی خدمت میں فتوح ودینار بھیجا کرتے تھے اور اس نواح کے غیر مسلم آج بھی درگاہ کی زیارت کے لئے آتے ہیں اور درگاہ کے مجاوروں کو نذرانہ پیش کرتے ہیں۔‘‘
(سفینۃ الاولیاء)
رائے بہادر پنڈت ہربلاس ساردا حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی نسبت اپنی انگریزی تصنیف میں لکھتے ہیں کہ
’’انھو ں نے کبھی کسی کو تنگ کرنے کا مشورہ نہیں دیا اور خدا کی تمام مخلوقات کی نسبت ان کا نقطہ نظر صلح جوئی اور خیر خواہی کا تھا۔‘‘ (اجمیر)
(اس مضمون کی تیاری میں درج ذیل کتابوں سے مدد لی گئی ہے۔ سیرالاولیاء، سفینۃ الاولیاء،انوار اصفیاء، تاریخ فیروز شاہی،تاریخ فرشتہ، آئین اکبری، انیس الارواح، سوانح غوث وخواجہ اور رودِ کوثر)