اپنے گھر کے بلونگے شلونگے
پچھلے دنوں ایک’’ موقر‘‘ نقاد کا ایک بیان نظر سے گزرا…ایسے نقاد حضرات کے فرمودات کو میں وقت ضائع کرنے کی خاطر نظر سے گزارتا ہوں اور انہیں گزر جانے دیتا ہوں‘ وہ جو کہتے ہیں ناں کہ فلاں صاحب گزر گئے ایسے انہیں گزر جانے دیتا ہوں لیکن میں نے اس بیان کو گزرنے نہ دیا‘ ٹھہرجانے دیا کہ ان کا کہنا تھاکہ تمام بڑے ادیب اپنی ادبی زندگی کی ابتداء شاعری سے کرتے ہیں اور بعدازاں نثر کی جانب آتے ہیں
…شاید اسی لئے میں ایک بڑا ادیب نہیں بن سکا کہ میں نے بھولے سے بھی کبھی شاعری سے رجوع نہیں کیا…میری ادبی زندگی کی ابتداء نثر تھی اور انتہا بھی نثر تھی…دراصل شاعری کیلئے ایک ’’ موزوں‘‘ طبع نہ رکھتا تھا…اوزان کے ناپ تول کا بھی ماہر نہ تھا‘ غیب سے بھی حرام ہے کبھی کوئی خیال آتے ہوں‘ داغ دل یاد آنے لگے کے لازوال مصرعے کے بعد میں‘ دور کے ڈھول بھی سہانے لگے جیسا واہیات قافیہ جوڑنے کے قابل نہ تھا
… یعنی منجی پیڑھی ٹھونکنے کے لطیف فن سے آشنا نہ تھا… یوں میرے بارے میں یہ افواہ عام ہوگئی کہ میں شاعروں سے بغض رکھتا ہوں اور یہ افواہ نہیں ایک حقیقت ہے کہ میں واقعی بغض رکھتا ہوں…بھلا یہ ستم نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک شاعر عمر بھر میں ایک کام کا شعر کہہ دے اور پھر وہ اسی ایک شعر کے بل بوتے پر پوری زندگی مشاعرے’’ لوٹتا‘‘ رہے
علاوہ ازیں ’’ لفافے‘‘ بھی لوٹتا رہے…اور میں یہاں مثالیں دے کر واضح کر سکتا ہوں لیکن اس میں کچھ پردہ نشینوں اور قریبی دوستوں کے نام بھی آتے ہیں…ہم ناولوں‘ افسانوں اور سفرناموں کے ڈھیر لگاتے ہوں اور پھر بھی کوئی نہ پوچھے کہ میاں کیا بیچتے ہو…ہم اپنی نثر کی دکان لگائے مکھیاں مارتے رہیں کیسا ستم ہے…ویسے اپنے کسی ایک بے ہودہ سے شعر کو مشہور اور مقبول کر دینے والا ایک نسخہ ہے اور تیر بہدف ہے…مثلاً آپ شعر کہتے ہیں کہ
ہم کو اپنے گھر کے بلونگے اچھے لگتے ہیں…بلونگے کیا شلونگے بھی اچھے لگتے ہیں…تو آپ ہر مشاعرے میں یہ شعر مسلسل پڑھتے ہیں‘ اس مشاعرے میں شریک شعراء محض اس لئے’’ کیا کہنے…کیا خوب کہا ہے…پھر سے پڑھئے‘‘ کی داد دیتے ہیں تاکہ جب وہ غزل سرا ہوں تو آپ خواجہ سرا نہ ہو جائیں‘ انہیں بھی اسی طور داد دیں‘ توصیف کے ڈونگرے نچھاور کریں…علاوہ ازیں اگر آپ کہیں کچھ لکھتے ہیں تو تحریر کے درمیان میں…ہاں خوب یاد آیا میرا ایک شعر ہے کہ گھر کے بلونگے اچھے لگتے ہیں متعدد بار لکھتے ہیں یہاں تک کہ عوام الناس کے ذہنوں میں آپ کے بلونگے اور شلونگے رقص کرنے لگتے ہیں…
ویسے میں بغض تو دراصل منیر نیازی‘مجید امجد‘ انور شعور‘ رضا چغتائی‘ اظہار الحق‘ وحید احمد وغیرہ سے رکھتا ہوں کہ ظالم ایسے شعر’’ نکالتے‘‘ ہیں کہ اپنے نثر نگار ہونے پر خفت ہونے لگتی ہے…
منیر نیازی ایک بار ریڈیو کے کسی مشاعرے میں شریک ہوئے…اب وہ اپنے بیشتر ہم عصر شعراء کو کمی کمین جانتے تھے یہاں تک کہ جب کسی شیدائی نے جذباتی ہو کر کہا کہ منیر صاحب…یہ درست ہے کہ غالب اور اقبال بڑے شاعر تھے اور فیض صاحب بھی گزارے کے تھے لیکن آپ…اس پر منیر نے نہایت سنجیدگی سے کہاتھا
کاکا‘ تو نے جو کچھ کہا ہے اس میں مبالغہ تو ہے لیکن میں تم سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں تو اس ریڈیو کے مشاعرے میں جب دیگر شعراء اپناکلام پیش کر رہے تھے تو منیر منہ میں گھنگھنیاں ڈالے چپ بیٹھے رہے‘ نہ کوئی داد اور نہ کوئی بیداد…جب منیر کی باری آئی انہوں نے مطلع پڑھا تو دیگر شعراء نے بھی چپ سادھ لی… منیر نے غزل کا دوسرا شعر پڑھا کچھ توقف کیا اور پھر خود ہی کہنے لگے…واہ منیر نیازی‘ کیا شعر کہا ہے…
ہمارے ہاں جب کبھی ادبی سرگرمیوں کو فروغ دینے کا قصد کیا جاتا ہے تو ہر جانب سے پکار اٹھتی ہے کہ مشاعرے کروائیں‘ مشاعرے برپا کریں اور ایسا ہی ہوتا ہے ہر جانب مشاعروں کی ہاہاکار مچ جاتی ہے‘ لفافوں کی ریل پیل ہوجاتی ہے…لیجئے ادب کو فروغ حاصل ہوگیا… یہاں تک کہ ایک زمانے میں’’ میلہ مویشیاں‘‘ کے دوران بھی مشاعرے منعقد ہوتے تھے
ابھی پچھلے دنوں ہندوستان کے ایک مشہور شاعر ندا فاضلی کا انتقال ہوگیا…ان کا ایک فلمی نغمہ ’’ کسی کو اپنا جہاں نہیں ملتا‘ کسی کو زمیں کسی کو آسمان نہیں ملتا‘‘ اس شعر میں میری یادداشت کا سقم شامل ہے یہ شعر بہت مقبول ہوا…جب جرمنی کی ایک سرکاری ادبی تنظیم’’ لٹریئر ورکسٹائے‘‘ نے میرے ناول’’ راکھ‘‘ کو جنوب مشرقی ایشیا کا سب سے نمائندہ ناول قرار دے کر اس کی پذیرائی کی
ہائیڈل برگ یونیورسٹی کی پروفیسر کرسٹینا آسٹن ہیلڈ کو اس محفل کی میزبانی کیلئے بلایا اور کرسٹینا وہ خاتون ہیں جنہوں نے جرمن زبان میں قرۃ العین حیدر کے ناولوں پر پی ایچ ڈی کی’’ راکھ‘‘ کو جرمن زبان میں ڈھال کر اس کی ڈرامائی تشکیل کی گئی تو وہاں ندا فاضلی بھی تھے…کچھ دن ان کے ساتھ رفاقت رہی اور جب میں ناگہانی طورپر بیمار پڑ گیا تو اس درویش خصلت شخص نے دن رات میری تیمار داری کی…ندا نے ایک شب کہا’’ تارڑ بھائی… ہم شاعر دراصل انٹرٹینر ہوتے ہیں‘ لوگ مشاعروں میں محظوظ ہونے کے لئے آتے ہیں اور ہم انہیں محظوظ کرتے ہیں جب کہ ہمارا سنجیدہ اور اصل کلام کوئی نہیں سنتا…
میں تذکرہ کرچکا ہوں کہ بہت برس پیشتر میں نے گوپی چندنارنگ کو اپنے ہاں ناشتے کیلئے مدعو کیا اور انکے ہمراہ ایک خاموش طبع چپ سے شخص تھے نارنگ نے تعارف کروایا کہ یہ شہریار ہیں… ہمارے بڑے شاعر ہیں…انہوں نے ’’ امراؤ جان ادا‘‘ کے گانے لکھے تھے…شہریار کو عمر بھر قلق رہا کہ میری سنجیدہ شاعری کو کسی نے نہ سراہا… ہمیشہ ’’ امراؤ جان ادا‘‘ کے گیتوں نے مجھے رسوا کیا…
نہ صرف شہریار اور ندافاضلی اس لئے بڑے شاعر کے رتبے تک نہ پہنچ پائے کہ انہوں نے کبھی بھی ایسا بلند پایہ شعر نہ کہا کہ
ہم کو اپنے گھر کے بلونگے اچھے لگتے ہیں
بلونگے کیا شلونگے بھی اچھے لگتے ہیں